کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 540
کیفیت گوش گزار کی، تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بہت ہی خوش ہوئے، پھر اہل بصرہ کے وفد نے کوفہ والوں سے جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شریک تھے، مل کر ان کی رائے دریافت کی تو سب نے صلح و آشتی کو مناسب اور بہتر بتایا، پھر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان بصرہ والوں کو بھی اپنی خدمت میں طلب کر کے ہر طرح اطمینان دلایا، یہ لوگ بھی خوش و خرم واپس آئے اور سب کو صلح و مصالحت کے یقینی ہونے کی خوش خبری سنائی۔
فتنہ پردازی کے لیے مشورت :
صلح کی تمہید قائم ہو جانے کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے تمام اہل لشکر کو جمع کر کے ایک فصیح و بلیغ اور نہایت پر تاثیر تقریر فرمائی اور حکم دیا کہ کل اہل بصرہ کی جانب کوچ ہو گا، لیکن ہمارا بصرہ کی جانب بڑھنا جنگ و پیکار کے لیے نہیں ، بلکہ صلح و آشتی قائم کرنے کے لیے اور آتش جنگ پر پانی ڈالنے کے لیے ہے، ساتھ ہی آپ نے یہ حکم دیا کہ جو لوگ محاصرہ عثمان رضی اللہ عنہ میں شریک تھے، وہ ہمارے ساتھ کوچ نہ کریں بلکہ ہمارے لشکر سے علیحدہ ہو جائیں ۔
یہ تقریر سن کر اور حکم سن کر اہل مصر اور عبداللہ بن سبا کو بڑی فکر پیدا ہوئی، سیّدنا علی کے لشکر میں ایسے لوگوں کی تعداد دو ڈھائی ہزار کے قریب تھی جن میں بعض بڑے با اثر اور چالاک بھی تھے، ان لوگوں کے سرداروں اور سمجھ داروں کو عبداللہ بن سبا نے الگ ایک خاص مجلس میں مدعو کیا، آج مجلس خاص میں عبداللہ بن سبا، ابن بلجم، اشتر، اشتر کے خاص خاص احباب، علیا بن الٰہیتم، سالم بن ثعلبہ، شریح بن اونی وغیرہم بلوائی سردار شریک ہوئے، اور آپس میں کہنے لگے کہ اب تک طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما قصاص کے خواہاں تھے، لیکن اب تو امیر المومنین رضی اللہ عنہ بھی ان ہی کے ہم خیال معلوم ہوتے ہیں ، آج ہم کو جدا ہونے کا حکم مل چکا ہے، اگر آپس میں ان کی صلح ہو گئی تو متفق ہو جانے کے بعد یہ ہم سے ضرور قصاص لیں گے اور ہم سب کو سزا دیں گے۔
اشتر نے کہا، حقیقت یہ ہے کہ طلحہ و زبیر ( رضی اللہ عنہما ) ہوں یا علی ( رضی اللہ عنہ ) ہوں ، ہمارے متعلق تو سب کی رائے ایک ہی ہے، اب جو یہ صلح کر لیں گے تو یقینا ہمارے خون پر ہی صلح کریں گے، لہٰذا میرے نزدیک تو مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ طلحہ و زبیر و علی رضی اللہ عنہم تینوں کو عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا دیں اس کے بعد خود بخود امن و سکون پیدا ہو جائے گا۔
عبداللہ بن سبا نے جو اس مجلس کا پریذیڈنٹ بنا ہوا تھا کہا کہ تم لوگوں کی تعداد بہت کم ہے اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ اس وقت بیس ہزار کا لشکر موجود ہے، اسی طرح بصرہ میں طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کے ہمراہ بھی تیس ہزار سے فوج کم نہیں ہے، ہمارے لیے اپنے مقصد کا پورا کرنا سخت دشوار ہے۔