کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 539
دیکھو یہیں بصرہ میں آپ نے بہت سے آدمیوں کو قصاص عثمانی میں قتل کر ڈالا، لیکن حرقوص بن زہیر آپ کے ہاتھ نہ آیا، آپ نے اس کا تعاقب کیا، تو ۶ ہزار آدمی اس کی حمایت میں آپ سے لڑنے کے لیے آمادہ ہو گئے اور آپ نے مصلحتاً اس کا تعاقب چھوڑ دیا، اسی طرح اگر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مصلحتاًفتنہ کے دبانے اور طاقت حاصل کرنے کے انتظار میں مجبورانہ طور پر فوراً قصاص نہ لے سکے تو آپ کو انتظار کرنا چاہیے تھا، آپ کے لیے یہ کہاں جائز تھا کہ آپ خود کھڑے ہو جائیں اور اس فتنہ کو اور بڑھائیں ، اس طرح تو فتنہ ترقی کرے گا، مسلمانوں میں خونریزی ہو گی اور قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ قصاص سے بچے رہیں گے۔
یہ باتیں کہہ کر آخر میں سیّدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے نہایت دل سوزی کے ساتھ کہا کہ اے بزرگو! اس وقت سب سے بڑی اصلاح یہی ہے کہ آپس میں صلح کر لو، تاکہ مسلمانوں کو امن و عافیت حاصل ہو، آپ حضرات مفاتیح خیر اور انجم ہدایت ہیں ، آپ برائے خداہم لوگوں کو ابتلاء میں نہ ڈالیں ، ورنہ یادرہے کہ آپ بھی ابتلاء میں مبتلا ہو جائیں گے اور امت مسلمہ کوبڑا نقصان پہنچے گا۔
سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ کی ان باتوں کا سیدہ ام المومنین اور سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہما اور سیّدنا زبیر کے رضی اللہ عنہم دلوں پر بڑا اثر ہوا اور انہوں نے کہا کہ اگر سیّدنا علی کے یہی خیالات ہیں جو آپ نے بیان کیے اور وہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لینے کا اردہ رکھتے ہیں تو پھر لڑائی اور مخالفت کی کوئی بات ہی باقی نہیں رہتی، ہم اب تک یہی سمجھتے رہے کہ ان کو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے ہمدردی ہے اور اسی لیے قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ ان کے لشکر میں شریک اور ان کے زیر حمایت سب اہم کاموں میں دخیل ہیں ۔
قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے جو کچھ کہا ہے یہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے خیالات کی ترجمانی ہے، ان حضرات نے فرمایا کہ پھر ہم کو بھی ان سے کوئی مخالفت نہ ہوگی، اس گفتگو کے بعد سیّدنا قعقاع رضی اللہ عنہ بصرہ سے رخصت ہو کر امیر المومنین سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر کی طرف چلے، ان کے ساتھ ہی بصرہ کے بااثر لوگوں کا ایک وفد بھی ہو لیا، یہ لوگ اس لیے گئے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ کے خیالات معلوم کر کے آئیں کہ وہ حقیقتاً مصالحت پر آمادہ ہیں یا نہیں ، کیونکہ انہوں نے یہ افواہیں سنی تھیں کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ ارادہ ہے کہ بصرہ کو فتح کر کے جوانوں کو قتل کر دیں گے، اور ان کی عورتوں اور بچوں کو لونڈی اور غلام بنا لیں گے۔
یہ خبریں عبداللہ بن سبا کی جماعت کے لوگوں نے جو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں شریک تھے بصرہ میں مشہور کرا دی تھیں ۔
جب سیّدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے تمام