کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 538
میں خوب کار نمایاں کیا، ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم کل تک دارالامارۃ کو خالی کردو۔ غرض یہ کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ ، اشتر کوفہ سے نوہزار کی جمعیت لے کر روانہ ہوئے، جس وقت اہل کوفہ کا یہ لشکر مقام ذی قار کے متصل پہنچا تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کا استقبال کیا اور ان لوگوں کی ستائش کی، پھر فرمایا کہ اے اہل کوفہ ہم نے تم کو اس لیے تکلیف دی ہے کہ تم ہمارے ساتھ مل کر اہل بصرہ کا مقابلہ کرو، اگر وہ لوگ اپنی رائے سے رجوع کر لیں تو سبحان اللہ اس سے بہتر اور کوئی بات نہیں اور اگر انہوں نے اپنی رائے پر اصرار کیا تو ہم نرمی سے پیش آئیں گے، تاکہ ہماری طرف سے ظلم کی ابتدا نہ ہو لیکن ہم کسی کام کو بھی جس میں ذرا سا بھی فساد ہو گا، بغیر اصلاح نہ چھوڑیں گے، یہ باتیں سننے کے بعد اہل کوفہ بھی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ مقام ذی قار میں قیام پذیر ہو گئے۔ دوسرے دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو بصرہ کی طرف روانہ کیا، اسی مقام ذی قار میں سیّدنا اویس قرنی رحمہ اللہ مشہور تابعی نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت کی۔ مصالحت کی کوشش: سیّدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس لیے بصرہ کی طرف روانہ کیا کہ وہ وہاں جا کر سیدہ ام المومنین اور سیّدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہم کا عندیہ معلوم کریں اور جہاں تک ممکن ہو ان حضرات کو صلح و اشتی کی طرف مائل کر کے بیعت اور تجدید بیعت کے لیے آمادہ کریں ۔ سیّدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ بڑے زبان آور عقلمندر اور ذی اثر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت سے فیض یافتہ تھے، انہوں نے بصرہ میں پہنچ کر مذکورۃ الصدر بزرگوں سے ملاقات کی۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ آپ کو اس کام پر کس چیز نے آمادہ کیا ہے اور آپ کی کیا خواہش ہے، انہوں نے فرمایا کہ میرا مدعا صرف مسلمانوں کی اصلاح اور ان کو قرآن پر عامل بنانا ہے، سیّدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما بھی وہیں موجود تھے، ان سے بھی یہی سوال کیا گیا اور انہوں نے بھی وہی جواب دیا جو کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ رضی اللہ عنہا نے دیا تھا، یہ سن کر سیّدنا قعقاع بن عمرو رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اگر آپ کا منشاء اصلاح اور عمل بالقرآن ہے، تو یہ مقصد تو اس طرح پورا نہ ہو گا جس طرح آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں ، ان بزرگوں نے جواب دیا کہ قرآن کریم میں قصاص کا حکم ہے ، ہم خون عثمان رضی اللہ عنہ کا قصاص لینا چاہتے ہیں ۔ سیدنا قعقاع رضی اللہ عنہ نے کہا کہ قصاص اس طرح کہاں لیا جاتا ہے، اوّل امامت و خلافت کا قیام و استحکام ضروری ہے تاکہ امن و امان قائم ہو، اس کے بعد قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے بہ آسانی قصاص لیا جا سکتا ہے، لیکن جب امن و امان اور کوئی نظام ملکی باقی نہ رہے، تو ہر شخص کہاں مجاز ہے کہ وہ قصاص لے،