کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 537
مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے بھائی ہیں ، ان کا خون و مال حرام ہے۔ [1] عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کو ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی باتوں سے کچھ ایسی برافروختگی ہوئی کہ وہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کو گالی دے بیٹھے، ابو موسیٰ گالی سن کر خاموش ہو گئے، مگر حاضرین میں سے کسی نے ترکی بترکی جواب دیا بات بڑھی اور لوگ عمار رضی اللہ عنہ پر ٹوٹ پڑے، مگر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے عمار رضی اللہ عنہ کو بچا لیا۔ انھی ایام میں سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بصرہ سے اہل کوفہ کے نام خطوط روانہ کیے، جن میں لکھا تھا کہ اس زمانہ میں تم لوگ کسی کی مدد نہ کرو، اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ رہو یا ہماری مدد کرو کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کے خون کا بدلہ لینے نکلے ہیں ، اسی جلسہ میں زید بن صوحان نے اُمّ المومنین رضی اللہ عنہا کا خط مسجد میں لوگوں کوپڑھ کر سنانا شروع کیا، شبت بن ربعی گالی دے بیٹھا، اس سے حاضرین میں ایک جوش پیدا ہو گیا اور علانیہ سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کی طرف داری کا اظہار کرنے لگے، ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ اس جوش و خروش کو کم کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ فتنہ کے فرو ہونے تک گھروں میں بیٹھ رہو، میری اطاعت کرو، عرب کے ٹیلوں میں سے ایک ٹیلہ بن جاؤ، تاکہ مظلوم تمہارے سایہ میں آ کر پناہ گزیں ہوں ، تم لوگ اپنے نیزوں کی نوکیں نیچی کر لو اور اپنی تلواروں کو نیام میں کر لو۔ ان باتوں کو سن کر زید بن صوحان نے کھڑے ہو کر لوگوں کو سیّدنا امیر المومنین علی رضی اللہ عنہ کی مدد کرنے کی ترغیب دی، اس کے بعد اور کئی شخص یکے بعد دیگرے تائید کرنے کو کھڑے ہو گئے، اس کے بعد عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ بولے کہ لوگو! سیّدنا علی رضی اللہ عنہ تم کو حق دیکھنے کے لیے بلایا ہے چلو اور ان کے ساتھ ہو کر لڑو،پھر سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ لوگو! ہماری دعوت قبول کرو اور ہماری اطاعت کرو اور جس مصیبت میں تم اور ہم سب مبتلا ہو گئے ہیں اس میں ہماری مدد کرو، امیرالمومنین رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مظلوم ہیں تو ہماری مدد کرو اور اگر ہم ظالم ہیں تو ہم سے حق لو، وہ یہ بھی فرماتے ہیں کہ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما نے سب سے پہلے میرے ہاتھ پر بیعت کی اور سب سے پہلے بدعہدی کی، سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی تقریر سن کر لوگوں کے دلوں پر ایک فوری اثر ہوا اور سب نے اپنی آمادگی ظاہرکر دی۔ عماربن یاسر اور سیّدنا حسن رضی اللہ عنہما کو روانہ کرنے کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے مالک اشتر کو بھی روانہ کر دیا تھا، اشتر کوفہ میں اس وقت پہنچا، جب کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما تقریر کر رہے تھے، اشتر کے آ جانے سے اور بھی تقویت ہوئی اور ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی بات پھر کسی نے نہ سنی، حالانکہ وہ آخر تک اپنی اسی رائے کا اظہار کرتے رہے کہ گوشہ نشینی اور غیر جانب داری اختیار کرو، مالک اشتر نے پہنچ کر قبائل کو آمادہ کرنے
[1] سنن ترمذی، ابواب البر، حدیث ۱۹۲۷، حدیث حسن۔