کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 536
کرنے لگے، مگر کسی نے آمادگی کا اظہار نہ کیا، جب محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے زیادہ اصرار کے ساتھ ترغیب دی تو لوگوں نے کہا کہ لڑائی کے لیے نکلنا دنیا کا راستہ ہے اور بیٹھ رہنا آخرت کی راہ ہے، لوگ یہ سن کر بیٹھ رہے، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ کو یہ دیکھ کر غصہ آیا اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے سختی کا برتاؤ کیا، ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا کہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بیعت میری اور علی رضی اللہ عنہ دونوں کی گردن میں ہے، اگر لڑائی ضروری ہے، تو قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے جہاں کہیں ہوں لڑنا چاہیے، یہ دونوں صاحب مایوس ہو کر کوفہ سے چل دیئے اور مقام ذی قار میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچ کر کوفہ کا تمام حال گوش گزار کیا۔ اشتروابن عباس رضی اللہ عنہ کوفہ میں : سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اور محمد بن جعفر رضی اللہ عنہ کے ناکام واپس آنے پر اشتر کی طرف مخاطب ہو کر کہا کہ تم ابن عباس رضی اللہ عنہما کو ہمراہ لے کر جاؤ، اور ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کو جس طرح ممکن ہو سمجھاؤ، چنانچہ یہ دونوں کوفہ پہنچے، ہر چند ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کو سمجھایا اور فوجی امداد طلب کی، لیکن ابو موسیٰ آخر تک ہر ایک بات کا صرف ایک ہی جواب دیتے رہے کہ جب تک فتنہ فرو نہ ہو جائے، میں تو سکوت ہی اختیار رکھوں گا اشتر اور ابن عباس رضی اللہ عنہما دونوں مجبور ہو کر واپس چلے آئے اور عرض کیا کہ وہاں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ عماربن یاسر اور حسن بن علی رضی اللہ عنہم کوفہ میں : سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اشترو ابن عباس رضی اللہ عنہما کے واپس آنے پر اپنے بیٹے حسن رضی اللہ عنہ اور عمار بن یاسر کو کوفہ کی طرف روانہ کیا، جب یہ دونوں کوفہ میں پہنچے، تو ان کے آنے کی خبر سن کر ابوموسیٰ مسجد میں آئے، حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے معانقہ کیا اور عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہا کہ تم نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی کوئی امداد نہیں کی اور فاجروں کے ساتھ شامل ہو گئے۔ عمار رضی اللہ عنہ نے کہا نہیں میں نے ایسا نہیں کیا اتنے میں سیّدنا حسن رضی اللہ عنہ بول پڑے، کہ لوگوں نے ہم سے اس معاملہ میں کوئی مشورہ نہیں کیا اور اصلاح کے سوا ہمارا کوئی دوسرا مقصود نہیں ہے اور امیر المومنین اصلاح امت کے کاموں میں کسی دوسرے سے ڈرتے نہیں ہیں ۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے نہایت ادب کے ساتھ جواب دیا کہ میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں ، آپ نے سچ فرمایا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے، کہ عنقریب فتنہ برپا ہونے والا ہے، اس میں بیٹھا ہوا شخص کھڑا ہونے والے سے، کھڑا ہوا پیادہ چلنے والے سے، پیادہ چلنے والا سوار سے بہتر ہوگا[1] اور کل
[1] صحیح بخاری، کتاب الفتن، حدیث ۷۰۸۱ و ۷۰۸۲۔