کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 534
مدافعت کی گئی، مگر شام ہونے کے سبب لڑائی ختم ہو گئی، اگلے دن علی الصبح حکیم بن جبلہ نے صف آرائی کی اور طرفین سے لڑائی شروع ہوئی، حکیم بن جبلہ مارا گیا اور خلاصہ یہ کہ عثمان بن حنیف کو انجام کار شکست ہوئی، بصرہ پر طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما کا قبضہ ہو گیا، عثمان بن حنیف گرفتار ہو کر سیّدنا طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے سامنے آئے تو سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کو اطلاع دی گئی، انہوں نے چھوڑ دینے کا حکم دیا وہ وہاں سے چھوٹ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف روانہ ہوئے، اب سیّدنا طلحہ و زبیر رضی اللہ عنہما اور سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کا بصرہ پر قبضہ ہو گیا، لیکن یہ قبضہ بھی ویسا ہی تھا جیسا کہ عثمان بن حنیف کا قبضہ تھا، یعنی موافق و مخالف دونوں قسم کے لوگ بصرہ میں موجود تھے۔[1] سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی مدینہ سے روانگی: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو جب یہ معلوم ہوا کہ اہل مکہ مخالفت پر آمادہ ہیں تو آپ نے ملک شام کی طرف روانگی کا قصد ملتوی فرمایا اس کے بعد ہی خبر پہنچی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیّدنا زبیر سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہما مع لشکر مکہ سے بصرہ کی طرف روانہ ہو گئے، تو آپ کو بہت صدمہ ہوا، آپ نے تمام اہل مدینہ سے مدد طلب کی، خطبہ پڑھا اور لوگوں کو لڑائی کے لیے آمادہ کیا۔ اہل مدینہ کو یہ بہت ہی شاق گزرتا تھا کہ وہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما کے مقابلہ میں لڑنے کو نکلیں لیکن جب سیّدنا ابوالٰہیثم بدری، زیاد بن حنظلہ، خزیمہ بن ثابت اور ابوقتادہ رضی اللہ عنہم نے آمادگی ظاہر کی تو اور لوگ بھی آمادہ ہو گئے، آخر ماہ ربیع الثانی ۳۶ ھ کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ مدینہ سے نکل کر بصرہ کی طرف روانہ ہوئے ، کوفیوں اور مصریوں کے گروہوں نے بھی آپ کی معیت اختیار کی۔ عبداللہ بن سباء یہودی منافق، لشکر علی میں : اسی لشکر میں عبداللہ بن سبا بھی مع اپنے ساتھیوں اور راز داروں کے موجود تھا، جب آپ مدینہ سے روانہ ہوئے، تو راستہ میں سیّدنا عبداللہ بن سلام مل گئے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے گھوڑے کی لگام پکڑ کر کھڑے ہو گئے اور کہا کہ اے امیرالمومنین رضی اللہ عنہ آپ مدینہ سے تشریف نہ لے جائیں ، واللہ اگر آپ یہاں سے نکل جائیں گے تو مسلمانوں کا امیر یہاں پھر لوٹ کر نہ آئے گا، وہ لوگ گالیاں دیتے ہوئے عبداللہ بن سلام کی طرف دوڑے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کو چھوڑ دو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں یہ اچھا آدمی ہے، اس کے بعد آپ آگے بڑھے اور مقام ربذہ میں پہنچے، تو خبر سنی کہ طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما بصرہ میں داخل ہو گئے۔
[1] صحیح بخاری، کتاب الفتن، حدیث ۷۱۰۰ و ۷۱۰۱۔