کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 532
امیر بصرہ کی مخالفت: یہ لشکر جب بصرہ کے قریب پہنچا، تو سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اوّل عبداللہ بن عامر کو اہل بصرہ کی طرف بھیجا اور بصرہ کے عمائدین کے نام خطوط بھی روانہ کیے، اور خود جواب کے انتظار میں ٹھہر گئیں ، بصرہ کے موجودہ گورنر عثمان بن حنیف کو جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تشریف آوری کا حال معلوم ہوا تو اس نے بصرہ کے چند با اثر لوگوں کو بلا کر بطور ایلچی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے لشکر کی جانب بھیجا، ان لوگوں نے سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہو کر تشریف لانے کا سبب دریافت کیا، تو انہوں نے جواب دیا کہ عام بلوائیوں اور قبائل کے فتنہ پرداز لوگوں نے یہ ہنگامہ برپا کیا ہے، اور مسلمانوں کی جمعیت کو نقصان پہنچا کر اسلام کو نقصان پہنچانا چاہا ہے، میں مسلمانوں کی یہ جماعت لے کر اس لیے نکلی ہوں کہ ان کو اصلی واقعات سے مطلع کروں اور ان کی اصلاح کروں ، اس خروج سے میرا مقصد اصلاح بین المسلمین کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ وہاں سے اٹھ کر یہ لوگ سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں آئے اور آنے کا سبب دریافت کیا، انہوں نے جواب دیا کہ ہم عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے کے لیے نکلے ہیں ، پھر ان بصرہ والوں نے دریافت کیا کہ کیا تم دونوں نے سیّدنا علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر بیعت نہیں کی تھی، انہوں نے جواب دیا کہ ہاں ہم نے بیعت کی تھی، مگر اس شرط پر کہ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے قصاص لیا جائے، دوسرے یہ کہ جب ہم سے بیعت لی گئی تھی، تو تلوار ہمارے سر پر تھی۔ یہاں سے اٹھ کر یہ لوگ بصرہ میں عثمان بن حنیف کے پاس واپس گئے اور جو کچھ سن کر گئے تھے سنایا، عثمان بن حنیف نے سن کر انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا، پھر ان لوگوں سے یعنی عمائدین بصرہ سے کہا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے، انہوں نے کہا کہ خاموشی اختیار کرو، عثمان بن حنیف نے کہا کہ میں ان کو روکوں گا جب تک سیّدنا علی رضی اللہ عنہ یہاں تشریف نہ لے آئیں ، عمائدین بصرہ اپنے اپنے گھروں میں آ کر بیٹھ رہے۔ عثمان نے تمام بصرہ والوں کو لڑائی کے لیے تیار کرنے اور مسجد میں جمع ہونے کا اعلان کیا، جب لوگ مسجد میں جمع ہو گئے، تو عثمان بن حنیف نے بصرہ کے ایک شخص قیس نامی کو تقریر کرنے کے لیے کھڑا کیا، اس نے کہا کہ’’ لوگو! اگر طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہما اور ان کے ہمراہی مکہ سے یہاں اپنی جان کی امان طلب کرنے آئے ہیں تو یہ بات غلط ہے، کیونکہ مکہ میں تو چڑیوں تک کو جان کی امان حاصل ہے، کوئی کسی کو نہیں ستا سکتا اور اگر یہ لوگ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے آئے ہیں تو ہم لوگ عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتل نہیں