کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 531
غرض اس رائے کو سب نے پسند کیا اور بصرہ کی تیاریاں ہونے لگیں ، اس کے بعد سب کی یہ رائے ہوئی کہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ میں تشریف لائے ہوئے ہیں ان کو بھی شریک کرو، بلکہ ان ہی کو اپنا سردار بناؤ، چنانچہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بلوائے گئے اور ان کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ پر خروج کریں ، سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ ہم مدینہ والوں کے ساتھ ہیں جو وہ کریں گے، یہ جواب سن کر پھر ان سے کسی نے اصرار نہیں کیا۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے سوا باقی امہات المومنین رضی اللہ عنہا بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ مکہ میں تشریف لائی ہوئی تھیں ، انہوں نے جب یہ سنا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بصرہ کا قصد رکھتی ہیں ، تو انہوں نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا ساتھ دینے اور ان کے ہمراہ رہنے کا ارادہ کیا، انھی میں سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہما بھی تھیں ، ان کو ان کے بھائی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بصرہ کی طرف جانے سے منع کیا اور وہ رک گئیں ، مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ بھی مکہ پہنچ گئے تھے، وہ بھی اس لشکر کے ہمراہ ہو لیے۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا کی مکہ سے بصرہ کی جانب روانگی: عبداللہ بن عامر اور یعلی بن منبہ بصرہ اور یمن سے کافی روپیہ اور سامان لے کر مکہ میں پہنچے تھے، لہٰذا ان ہی دونوں نے لشکر ام المومنین رضی اللہ عنہا کی سامان سفر کی تیاری و فراہمی میں حصہ لیا، ان دونوں نے روانگی سے پہلے تمام مکہ میں منادی کرا دی تھی کہ ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ بصرہ کی طرف جا رہے ہیں ، جو شخص اسلام کا ہمدرد اور خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینا چاہتا ہو وہ آئے اور شریک لشکر ہو جائے، اس کو سواری وغیرہ دی جائے گی۔ غرض اس طرح مکہ معظمہ سے ڈیڑھ ہزار آدمیوں کا لشکر روانہ ہوا، عین روانگی کے وقت مروان بن الحکم اور سعید بن العاص بھی مکہ میں پہنچے اور شریک لشکر ہوئے، مکہ سے تھوڑی ہی دور چلے تھے کہ اطراف و جوانب سے جوق در جوق لوگ آ آ کر شریک ہونا شروع ہوئے اور بہت جلد اس لشکر کی تعداد تین ہزار ہو گئی۔ ام فضل بنت الحرث مادر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بھی اتفاقاً شریک لشکر تھیں ، انہوں نے قبیلہ جہنیہ کے ایک شخص ظفر نامی کو اجرت دے کر سیّدنا علی کی جانب روانہ کیا، اور ایک خط دیا، جس میں اس لشکر اور اس کی روانگی کے تمام حالات لکھ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو آگاہ کیا گیا تھا، باقی امہات المومنین جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ رضی اللہ عنہا کے ہمراہ آئی تھیں ، مقام ذات عرق تک تو ہمراہ آئیں ، پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ رضی اللہ عنہا سے رو رو کر رخصت ہوئیں اور مدینہ کی طرف روانہ ہوئیں ۔ بعض اختلافات کی وجہ سے راستہ ہی سے سعید بن العاص اور مغیرہ بن شعبہ اور کچھ اور لوگ واپس ہو گئے۔