کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 530
مکہ معظمہ میں سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی جانب سے عبداللہ بن عامر حضرمی عامل تھے، انہوں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا صدیقہ کی یہ تقریر سن کر کہا کہ سب سے پہلے خون عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لینے والا میں ہوں ۔ یہ سنتے ہی تمام بنو امیہ جو بعد شہادت عثمان غنی رضی اللہ عنہ ابھی مکہ میں پہنچے تھے بول اٹھے، ہم سب آپ کے شریک ہیں ، ان ہی میں سعید بن العاصی اور ولید بن عقبہ وغیرہ بھی شامل تھے، عبداللہ بن عامر بصرہ سے معزول ہو کر مکہ ہی کی جانب آئے، یعلیٰ بن منبہ یمن سے آئے اور چھ سو اونٹ اور چھ لاکھ دینار لے کر آئے اوریہ تجویزیں ہونے لگیں کہ خون عثمان رضی اللہ عنہ کا معاوضہ لیا جائے۔ سیدنا طلحہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہما جب مدینہ سے روانہ ہو کر مکہ میں پہنچے، تو سیدہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے ان دونوں کو بلوا کر دریافت کیا کہ تم لوگ کس طرح تشریف لائے ہو، دونوں صاحبوں نے جواب دیا کہ مدینہ کے نیک اور شریف لوگوں پر اعراب اور بلوائی مستولی ہو گئے ہیں ، ان ہی کے خوف سے بھاگ کر یہاں آئے ہیں ، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ پھر تو تم کو ہمارے ساتھ ان کی طرف خروج کرنا چاہیے، دونوں صاحبوں نے آمادگی و رضامندی کا اظہار کیا۔ اہل مکہ سب سیدہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کے تابع فرمان تھے، عبداللہ ابن عامر سابق گورنر بصرہ، یعلیٰ بن منبہ گورنر یمن، سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ یہ چار شخص ام المومنین رضی اللہ عنہا کے لشکر میں سردار اور صاحب حل و عقد سمجھے جاتے تھے، اوّل کسی نے یہ مشورہ دیا کہ مکہ سے روانہ ہو کر اور مدینہ سے کترا کر ہم کو شام کے ملک میں جانا چاہیے، اس پر عبداللہ بن عامر نے کہا کہ ملک شام میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ موجود ہیں اور وہ ملک شام کو سنبھالے رکھنے کی کافی طاقت و اہلیت رکھتے ہیں ، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہم سب یہاں سے بصرہ چلیں ، وہاں میرے دوستوں اور ہمدردوں کی بھی ایک بھاری تعداد ضرور موجود ہے، میں وہاں اب تک عاملانہ حیثیت سے رہا ہوں ، نیز اہل بصرہ کا رجحان طبع سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی جانب زیادہ ہے لہٰذا بصرہ میں ہم کو یقینا کامیابی حاصل ہو گی اور اس طرح ایک زبردست صوبہ اور بہت بڑی جمعیت ہمارے ہاتھ آ جائے گی، کسی شخص نے کہا کہ ہم کو مکہ ہی میں رہ کر کیوں نہ مقابلہ کرنا چاہیے، اس کے جواب میں عبداللہ ابن عامر نے کہا کہ مکہ والوں کو ضرور ہم خیال بنا چکے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ ہیں لیکن ان لوگوں میں اتنی طاقت نہیں ہے کہ اگر وہ لوگ جو مدینہ میں موجود ہیں حملہ آور ہوں تو ان کا حملہ سنبھال سکیں ، لیکن یہاں سے اپنی طاقت اور جمعیت کو لے کر ہم بصرہ کی طرف گئے تو جس طرح اہل مکہ ہمارے ساتھ ہو گئے اسی طرح اہل بصرہ بھی یقینا ہمارے ساتھ ہو جائیں گے اور پھر ہماری طاقت اس قدر ہو گی کہ ہم ہر ایک حملہ کو سنبھال سکیں گے، اور خون عثمان رضی اللہ عنہ کے مطالبہ میں طاقت پیدا کر سکیں گے۔