کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 527
قیس بن سعد رضی اللہ عنہ مصر پہنچے تو وہاں کے بعض شخصوں نے ان کی اطاعت قبول کی اور بعض نے سکوت اختیار کیا، بعض نے یہ کہا کہ جب تک ہمارے بھائی مدینہ سے مصر میں واپس نہ آ جائیں گے، اس وقت تک ہم کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ سہل بن حنیف جو امیر شام ہو کر جا رہے تھے، تبوک پہنچ کر چند سواروں سے ملے، ان سواروں نے دریافت کیا کہ تم کون ہو ، سہل نے جواب دیا کہ امیر شام مقرر ہو کر جا رہا ہوں ، ان سواروں نے کہا کہ تم کو عثمان رضی اللہ عنہ کے سوا کسی اور نے امیر مقرر کر کے روانہ کیا ہے تو تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ فوراً واپس چلے جاؤ، یہ سن کر سہل مدینہ کی طرف واپس چلے آئے، یہ جب مدینہ میں داخل ہوئے ہیں تو ان کے ساتھ ہی بعض دوسرے واپس شدہ عمال بھی مدینہ میں پہنچے۔ جریر بن عبداللہ البجلی سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت ہمدان کے عامل تھے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کو لکھا کہ اپنے صوبہ سے بیعت لے کر ہمارے پاس چلے آؤ، وہ اس حکم کی تعمیل میں مدینہ چلے آئے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی حمایت حق: سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے معبد اسلمی کے ہاتھ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کے پاس ایک خط روانہ کیا جس کے جواب میں ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے لکھا کہ اہل کوفہ نے میرے ہاتھ پر بیعت کر لی ہے، اکثر نے یہ بیعت برضاو رغبت کی ہے اور بعض نے بہ اکراہ، اس خط کے آجانے سے گونہ اطمینان کوفہ کی طرف سے حاصل ہوا، جب ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے نام کوفہ کی جانب خط روانہ کیا گیا تھا، اسی وقت دوسرا خط جریر بن عبداللہ اور سبرہ جہنی کے ہاتھ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نام دمشق کی جانب بھیجا گیا، وہاں سے تین مہینے تک کوئی جواب نہیں آیا۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کئی مہینے تک قاصد کو ٹھہرائے رکھا، پھر ایک خط سر بمہر اپنے قاصد قبیصہ عبسی کو دے کر جریر بن عبداللہ کے ساتھ مدینہ کی طرف روانہ کیا، اس خط کے لفافہ پر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا پتہ صاف لکھا ہوا تھا یعنی من معاویہ رضی اللہ عنہ الی علی رضی اللہ عنہ ، یہ خط لے کر دونوں قاصد ماہ ربیع الاول ۳۶ ھ کے آخری ایام میں مدینہ پہنچے۔ قاصد نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر خط پیش کیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے لفافہ کو کھولا تو اس کے اندر سے کوئی خط نہ نکلا، آپ نے غصہ سے قاصد کی طرف دیکھا، قاصد نے کہا کہ میں قاصد ہوں مجھ کو جان کی امان ہے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں تجھ کو امان ہے، اس نے کہا کہ ملک شام میں کوئی آپ