کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 526
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ میرے نزدیک مناسب یہ ہے کہ تم اپنا مال و اسباب لے کر ینبوع چلے جاؤ اور وہاں دروازہ بند کر کے بیٹھ جاؤ، عرب لوگ خوب سرگرداں و پریشان ہوں گے، لیکن آپ کے سوا کسی کو لائق امارت نہ پائیں گے، اگر تم ان لوگوں یعنی قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ اٹھو گے تو لوگ تم پر خون عثمان کا الزام لگائیں گے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں تمہاری بات پر عمل کرنا مناسب نہیں سمجھتا، بلکہ تم کو میری بات پر عمل کرنا چاہیے، سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا بے شک میرے لیے یہی مناسب ہے کہ آپ کے احکام کی تعمیل کروں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں تم کو بجائے معاویہ رضی اللہ عنہ کے شام کا والی بنا کر بھیجنا چاہتا ہوں ، سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ معاویہ رضی اللہ عنہ سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کا ایک جدی بھائی ہے اور مجھ کو آپ کے ساتھ تعلق قرابت ہے، وہ مجھ کو شام کے ملک میں داخل ہوتے ہی قتل کر ڈالے گا، یا قید کر دے گا مناسب یہی ہے کہ معاویہ رضی اللہ عنہ سے خط و کتابت کی جائے اور کسی طرح بیعت لے لی جائے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس بات کے ماننے سے انکار فرما دیا۔ مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے ان کے مشورے پر عمل نہیں کیا اور سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے مشورے کو بھی رد کر دیا تو وہ ناراض و بد دل ہو کر مدینہ منورہ سے مکہ معظمہ کی طرف چلے گئے۔ عمال کا عزل و نصب: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بصرہ پر عثمان بن حنیف کو، کوفہ پر عمارہ بن شہاب کو، یمن پر عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو، مصر پر قیس بن سعد کو، شام پر سہل بن حنیف کو عامل و والی مقرر کر کے روانہ کیا۔ عثمان بن حنیف جب بصرہ پہنچے تو بعض لوگوں نے ان کو اپنا عامل و حاکم تسلیم کر کے ان کی اطاعت قبول کر لی، مگر بعض نے کہا کہ ہم فی الحال سکوت اختیار کرتے ہیں ، آئندہ جو طرز عمل اہل مدینہ کا ہو گا ہم اس کا اتباع کریں گے۔ کوفہ کی طرف عمارہ بن شہاب روانہ کیے گئے تھے، ابھی وہ راستے ہی میں تھے کہ طلیحہ بن خویلد سے ملاقات ہوئی، طلیحہ نے عمارہ سے کہا کہ مناسب یہی ہے کہ تم واپس چلے جاؤ، اہل کوفہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو کسی دوسرے عامل سے تبدیل کرنا نہیں چاہتے اور اگر تم میرا کہنا نہیں مانتے ہو تو میں تمہاری گردن ابھی اڑائے دیتا ہوں ، یہ سن کر عمارہ خاموشی کے ساتھ مدینہ کی طرف واپس چلے آئے۔ عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے یمن میں داخل ہونے سے پیشتر ہی وہاں کے سابق عامل یعلیٰ بن منبہ مکہ کی جانب روانہ ہو چکے تھے، عبیداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے باطمینان یمن کی حکومت سنبھال۔