کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 524
ضرور قصاص لوں گا اور سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے معاملہ میں پورا پورا انصاف کروں گا لیکن ابھی تک بلوائیوں کا زور ہے اور ادھر امر خلافت پورے طور پر مستحکم نہیں ہوا، میں اطمینان و سہولت حاصل ہونے پر اس طرف توجہ کروں گا، فی الحال اس معاملہ میں کچھ نہیں کیا جا سکتا، یہ دونوں صاحب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی گفتگو سن کر اور اٹھ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے آئے، لیکن لوگوں میں اس کے متعلق سرگوشیاں اور چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں ۔ قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ اور بلوائیوں کو تو یہ فکر ہوئی، کہ اگر قصاص لیا گیا تو پھر ہماری خیر نہیں ہے اور ان لوگوں کو جو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو مظلوم سمجھتے اور بلوائیوں سے سخت نفرت رکھتے تھے ان کو اس بات کا یقین ہوا کہ یہ لوگ جنہوں نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو ظالمانہ طور پر شہید کیا ہے، اپنے کیفر کردار کو نہ پہنچیں گے اور مزے سے فاتحانہ گل چھڑے اڑاتے ہوئے پھریں گے، اس قسم کے خیالات کا لوگوں کے دلوں میں پیدا ہو جانا سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کے لیے مضر تھا، مگر ان کے پاس اس کے لیے کوئی چارہ کار بھی نہ تھا اور وہ حالات موجودہ میں جب کہ پہلے ہی نظام حکومت درہم برہم ہو کر دارالخلافہ کی ہوا بگڑ چکی تھی کچھ کر بھی نہ سکتے تھے۔ بلوائیوں کی سرتابی: بیعت خلافت کے تیسرے دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ کوفہ و بصرہ و مصر وغیرہ ممالک اور دوسرے صوبوں سے آئے ہوئے تمام اعراب واپس چلے جائیں اس حکم کو سن کر عبداللہ بن سبا اور اس کی جماعت کے لوگوں نے واپس جانے اور مدینہ کو خالی کرنے سے انکار کیا اور اکثر بلوائیوں نے ان کا اس انکار میں ساتھ دیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی یہ حقیقتاً سب سے پہلی فدفالی تھی کہ ان کے حکم کو ان ہی لوگوں نے ماننے سے انکار کیا جو بظاہر اپنے آپ کو ان کا بڑا فدائی اور شیدائی ظاہر کرتے تھے۔ اس کے بعد سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور عرض کیا کہ آپ ہم کو بصرہ کوفہ کی طرف بھیج دیجئے، وہاں کے لوگوں کو چونکہ ہم سے ایک گونہ عقیدت ہے، لہٰذا ہم وہاں جا کر لوگوں کے منتشر خیالات کو یکسو کر دیں گے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو شبہ ہوا اور انہوں نے ان دونوں صاحبوں کو مدینہ سے باہر جانے کی ممانعت کر دی۔ مغیرہ و ابن عباس رضی اللہ عنہم کا مفید مشورہ: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کے تیسرے چوتھے ہی دن سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانہ کے تمام عاملوں اور والیوں کی معزولی کا فرمان لکھوایا اور ان والیوں اور عاملوں کی جگہ دوسرے لوگوں کا تقرر فرمایا۔