کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 523
لوگوں نے ضامن طلب کیا، مالک اشتر نے تلوار نکال کر کہا کہ ان کو قتل کیے دیتا ہوں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے مالک اشتر کو روکا اور کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ضامن میں ہوں ، اس کے بعد سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عمرے کے ارادے سے مکہ کی جانب روانہ ہوگئے، اس کا حال سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا اور لوگوں نے ان سے کہا کہ وہ آپ کے خلاف ارادہ لے کر روانہ ہوئے ہیں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فوراً ان کی گرفتاری کے لیے لوگوں کو روانہ کرنا چاہا، اتنے میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا جو سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی زوجہ تھیں آئیں اور انہوں نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو یقین دلایا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما آپ کے خلاف کوئی حرکت نہ کریں گے اور وہ صرف عمرہ ادا کرنے کے لیے روانہ ہوئے ہیں ، تب سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو اطمینان ہوا۔ ان کے علاوہ محمد بن مسلمہ ، اسامہ بن زید ، حسان بن ثابت ، کعب بن مالک ، ابوسعید خدری ، نعمان بن بشیر، زید بن ثابت ، سیّدنا مغیرہ بن شعبہ ، عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہم اجمعین وغیرہ جلیل القدر حضرات نے بھی بیعت نہیں کی، بہت سے اشخاص بالخصوص بنی امیہ بیعت میں شامل نہ ہونے کے لیے مدینہ سے شام کی طرف فوراً روانہ ہو گئے ، بعض حضرات اسی غرض سے مکہ کی طرف چل دیئے، جو صحابی مدینہ منورہ میں موجود تھے اور پھر بھی انہوں نے بیعت نہیں کی ان کو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے طلب کر کے وجہ دریافت کی تو انہوں نے صاف جواب دیا کہ ابھی مسلمانوں میں خون ریزی کے اسباب موجود ہیں اور فتنہ کا کلی انسداد نہیں ہوا، اس لیے ابھی ہم رکے ہوئے ہیں اور بالکل غیر جانب دار رہنا چاہتے ہیں ۔ اس کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے مروان بن الحکم کو طلب کیا، مگر اس کا کہیں پتہ نہ چلا، سیّدنا نائلہ زوجہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے قاتلوں کا نام دریافت کیا تو انہوں نے دو شخصوں کا صرف حلیہ بتایا اور نام نہ بتا سکیں ، محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی نسبت ان سے پوچھا کہ یہ بھی قاتلوں میں ہیں تو انہوں نے کہا کہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قتل سے پہلے یہ دروازے سے باہر واپس جا چکے تھے، بنی امیہ کے بعض افراد زوجہ عثمان رضی اللہ عنہ سیّدنا نائلہ رضی اللہ عنہ کی کٹی ہوئی انگلیاں اور خون آلود کرتہ لے کر ملک شام کی طرف سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے پاس گئے۔ خلافت کا دوسرا دن: سیدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ دونوں اگلے دن سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا کہ ہم نے تو بیعت اسی شرط پر کی ہے کہ آپ قاتلین عثمان سے قصاص لیں اگر آپ نے قصاص لینے میں تامل کیا تو ہماری بیعت فسخ ہو جائے گی، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں قاتلین عثمان رضی اللہ عنہ سے