کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 520
تیرے ساتھی کے ہیں ، یہ سن کر اس نے کہا کہ ہاں اب میں راضی ہوں ۔ ایک مرتبہ ایک شخص نے آپ کے یہاں نالش کی کہ فلاں شخص یہ کہتا ہے کہ اس نے خواب میں میری ماں سے جماع کیا ہے، آپ نے فرمایا اس خواب بیان کرنے والے کو دھوپ میں کھڑا کر کے اس کے سایہ کو کوڑے لگاؤ۔ آپ کے اقوال حکمیہ: آپ نے فرمایا، لوگو! اپنی زبان اور جسم سے خلا ملا اور اپنے اعمال و قلوب سے جدائی پیدا کرو۔ قیامت میں آدمی کو اسی کا بدلہ ملے گا جو کچھ کر جائے گا اور ان ہی کے ساتھ اس کا حشر ہو گا جن سے اسے محبت ہو گی۔ قبول عمل میں اہتمام بلیغ کرو کیونکہ کوئی عمل بغیر تقویٰ اور خلوص کے قبول نہیں کیا جائے گا۔ اے عالم قرآن! عامل قرآن بھی بن ، عالم وہی ہے جس نے پڑھ کر اس پر عمل کیا اور اپنے علم و عمل میں موافقت پیدا کی، ایک زمانہ ایسا آنے والا ہے کہ عالموں کے علم و عمل میں سخت اختلاف ہوگا اور وہ لوگ حلقے باندھ باندھ کر بیٹھیں گے اور ایک دوسرے پر فخر و مباہات کریں گے، حتی کہ کوئی شخص ان کے پاس آ بیٹھے گا تو اس کو الگ بیٹھنے کا حکم دیں گے، یاد رکھو کہ اعمال حلقہ و مجلس سے تعلق نہیں رکھتے بلکہ ذات الٰہی سے۔ حسن خلق آدمی کا رہبر، عقل اس کی مدد گار اور ادب انسان کی میراث ہے، وحشت غرور سے بھی بدتر چیز ہے۔ ایک شخص نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ مجھے مسئلہ تقدیر سمجھا دیجئے، آپ نے فرمایااندھیرا راستہ ہے نہ پوچھ، اس نے پھر وہی عرض کیا، آپ نے فرمایا کہ وہ بحرعمیق ہے، اس میں غوطہ مارنے کی کوشش نہ کر، اس نے پھر وہی عرض کیا، آپ نے فرمایا یہ اللہ تعالیٰ کا بھید ہے تجھ سے پوشیدہ رکھا گیا ہے، کیوں اس کی تفتیش کرتا ہے، اس نے پھر اصرار کیا، تو آپ نے فرمایا کہ اچھا یہ بتا کہ خدائے تعالیٰ نے تجھ کو اپنی مرضی کے موافق بنایا ہے یا تیری فرمائش کے موافق، اس نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مرضی کے موافق بنایا ہے، آپ نے فرمایا کہ بس پھر جیسے وہ چاہے تجھے استعمال کرے تجھے اس میں کیا چارہ ہے۔ ہر مصیبت کی ایک انتہا ہوتی ہے اور جب کسی پر مصیبت آتی ہے تو وہ اپنی انتہا تک پہنچ کر رہتی ہے، عاقل کو چاہیے کہ جب مصیبت میں گرفتار ہو تو بھٹکتا نہ پھرے اور اس کے دفع کی تدبیریں نہ کرے،