کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 519
تھے، یہ سن کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ آنکھوں میں آنسو بھر لائے اور فرمانے لگے، وہ میرے دوست ابوبکر رضی اللہ عنہ و عمر رضی اللہ عنہ ہیں ، دونوں امام الہدیٰ اور شیخ الاسلام تھے، قریش نے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ان دونوں کی پیروی کی اور جن لوگوں نے ان کی پیروی کی انہوں نے نجات پائی، اور جو لوگ ان کے راستے پر پڑ گئے وہی گروہ اللہ تعالیٰ ہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو جھوٹ سے سخت نفرت تھی، ایک مرتبہ آپ کچھ فرما رہے تھے کہ ایک شخص نے آپ کو جھٹلایا، آپ نے بد دعا کی، وہ ابھی مجلس سے اٹھنے بھی نہ پایا تھا کہ اس کی آنکھیں جاتی رہیں ۔ ایک مرتبہ دو آدمی کھانا کھانے بیٹے، ایک کے پاس پانچ روٹیاں تھیں اور دوسرے کے پاس تین، اتنے میں ایک اور آدمی آ گیا، ان دونوں نے اسے اپنے ساتھ کھانے کو بٹھا لیا، جب وہ تیسرا آدمی کھانا کھا کر چلنے لگا تو اس نے آٹھ درم ان دونوں کو دیکر کہا کہ جو کچھ میں نے کھایا ہے اس کے عوض میں سمجھو، اس کے جانے کے بعد ان دونوں میں درموں کی تقسیم کے متعلق جھگڑا ہوا، پانچ روٹیوں والے نے دوسرے سے کہا کہ میں پانچ درم لوں گا اور تجھ کو تین ملیں گے، کیونکہ تیری روٹیاں تین تھیں ، تین روٹیوں والے نے کہا میں تو نصف سے کم پر ہرگز راضی نہ ہوں گا، یعنی چار درم لے کر چھوڑوں گا۔ اس جھگڑے نے یہاں تک طول کھینچا کہ دونوں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، آپ نے ان دونوں کا بیان سن کر تین روٹیوں والے سے کہا کہ تیری روٹیاں کم تھیں تین درم تجھ کو زیادہ مل رہے ہیں بہتر ہے کہ تو رضا مند ہو جا، اس نے کہا کہ جب تک میری حق رسی نہ ہو گی میں کیسے راضی ہو سکتا ہوں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تیرے حصے میں صرف ایک درہم آئے گا، اور تیرے ساتھی کے حصے میں سات درہم آئیں گے، یہ سن کر اس کو بہت ہی تعجب ہوا اور اس نے کہا کہ آپ بھی عجیب قسم کا انصاف کر رہے ہیں ، ذرا مجھ کو سمجھا دیجئے کہ میرے حصے میں ایک اور اس کے حصے میں سات کس طرح آتے ہیں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا اچھا سنو کل آٹھ روٹیاں تھیں اور تم تین آدمی تھے، چونکہ یہ مساوی طور پر تقسیم نہیں ہو سکتیں ، لہٰذا ہر ایک روٹی کے تین ٹکڑے قرار دے کر کل چوبیس ٹکڑے سمجھو، یہ تو معلوم نہیں ہو سکتا کہ کس نے کم کھایا اور کس نے زیادہ لہٰذا یہی فرض کرنا پڑے گا کہ تینوں نے برابر کھانا کھایا اور ہر ایک شخص نے آٹھ آٹھ ٹکڑے کھائے، تیری تین روٹیوں کے نو ٹکڑوں میں سے ایک اس تیسرے شخص نے کھایا اور آٹھ تیرے حصے میں آئے اور تیرے ساتھی کی پانچ روٹیوں کے پندرہ ٹکڑوں میں سے سات اس تیسرے شخص نے کھائے اور آٹھ تیرے ساتھی کے حصے میں آئے، چونکہ تیرا ایک ٹکڑا اور تیرے ساتھی کے سات ٹکڑے، کل آٹھ ٹکڑے کھا کر اس نے آٹھ درہم دیئے ہیں لہٰذا ایک درہم تیرا ہے اور سات درہم