کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 518
کے امیر اور دنیا کے قائم رکھنے والے تھے، پس ہم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مستحق سمجھ کر ان سے بیعت کر لی اور اسی لیے کسی نے بھی اختلاف نہیں کیا اور کسی نے کسی کو نقصان پہنچانے کا ارادہ نہیں کیا، نہ کوئی متنفس ابوبکر رضی اللہ عنہ سے بیزار ہوا، لہٰذا میں نے بھی ابوبکر رضی اللہ عنہ کا حق ادا کیا ان کی اطاعت کی، ان کے لشکر میں شامل ہو کر ان کی طرف سے لڑا، وہ جو کچھ مجھے دیتے تھے لے لیتا تھا، جہاں کہیں مجھے لڑنے کا حکم دیتے تھے میں لڑتا تھا، اور ان کے حکم سے حد شرع لگاتا تھا۔ جب ان کا انتقال ہوا تو وہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کو اپنا خلیفہ بنا گئے، میں نے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی ویسا ہی برتاؤ کیا اور ان کے ساتھ اسی طرح پیش آیا، جس طرح سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا، جب سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو میں نے اپنے دل میں سوچا کہ میری پیش قدمی اسلام اور قرابت اور دوسری خصوصیات کو دیکھتے ہوئے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ میری خلافت کا حکم دے جائیں گے، لیکن وہ ڈرے کہ کہیں ایسے شخص کا انتخاب نہ کر جاؤں جس کا انجام اچھا نہ ہو، چنانچہ انہوں نے اپنے نفس کے ساتھ اپنی اولاد کو بھی خلافت سے محروم کر دیا، اگر سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ بخشش و عطا کے اصول پر چلتے تو اپنے بیٹے سے بڑھ کر کس کو مستحق سمجھتے، غرض انتخاب اب قریش کے ہاتھ میں آیا، جن میں سے ایک میں بھی تھا۔ جب لوگ انتخاب کے لیے جمع ہوئے تو میں نے خیال کیا کہ وہ مجھ سے تجاوز نہ کریں گے، عبدالرحمن بن عوف نے ہم سے وعدے لیے کہ جو کوئی خلیفہ مقرر کیا جائے ہم اس کی اطاعت کریں گے، پھر انہوں نے عثمان رضی اللہ عنہ کا ہاتھ پکڑ لیا، اب جو میں نے غور کیا تو معلوم ہوا کہ مجھ سے جو کچھ وعدہ لیا گیا تھا وہ غیر کی اطاعت کے واسطے لیا گیا تھا، لہٰذا میں نے عثمان رضی اللہ عنہ سے بیعت کر لی، اور ان کے ساتھ میں نے وہی سلوک کیا اور ان سے اسی طرح پیش آیا جس طرح سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیش آیا تھا۔ جب عثمان کا بھی انتقال ہو گیا تو میں نے خیال کیا کہ وہ لوگ تو گزر گئے، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا امام بنایا تھا، اور وہ بھی گزر گئے جن کے لیے مجھ سے وعدہ لیا گیا تھا، تو میں بیعت لینے پر آمادہ ہو گیا، چنانچہ اہل حرمین (مکہ و مدینہ) نے اور کوفہ و بصرہ کے رہنے والوں نے مجھ سے بیعت کر لی، اب اس معاملہ خلافت میں ایک ایسا شخص میرا مدمقابل ہے جس کی نہ قرابت میری مانند ہے، نہ علم، نہ سبقت اسلام حالانکہ کہ میں مستحق خلافت ہوں ۔ ایک شخص نے سیّدنا علی سے دریافت کیا کہ آپ نے ایک خطبہ میں کہا تھا کہ الٰہی ہم کو ویسی ہی صلاحیت عطا فرما، جیسی تو نے خلفائے راشدین کو فرمائی تھی، تو آپ کے نزدیک وہ خلفائے راشدین کون