کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 513
ذریعے تمام مجمع کو متحرک کر کے اپنے حسب منشاء کام لیتا رہا۔ یہ انتخاب خلیفہ کی تجویز بھی عبداللہ بن سبا ہی کی تھی، چنانچہ یہ لوگ جمع ہو کر سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس الگ الگ گئے، اور ان بزرگوں میں سے ہر ایک سے درخواست کی کہ آپ خلافت قبول فرما لیں اور ہم سے بیعت لے لیں ، ہر ایک بزرگ نے خلافت کے قبول کرنے سے انکار کیا اور یہ مجبور و نامراد ہو کر رہ گئے۔آخر عبداللہ بن سبا نے ایک تدبیر سمجھائی اور مدینہ منورہ میں ان باغیوں اور بلوائیوں نے ایک ڈھنڈورا پٹوا دیا کہ اہل مدینہ ہی ارباب حل و عقد ہیں ، اور اہل مدینہ ہی میں ابتدا سے خلیفہ کا انتخاب کرتے آئے ہیں ، اور اہل مدینہ ہی میں کے مشورے اور انتخاب سے منتخب کیے ہوئے خلیفہ کو مسلمانوں نے ہمیشہ خلیفہ تسلیم کیا ہے، لہٰذا ہم اعلان کرتے ہیں اور اہل مدینہ کو آگاہ کیے دیتے ہیں کہ تم کو صرف دو دن کی مہلت دی جاتی ہے اس دو دن کے عرصہ میں کوئی خلیفہ منتخب کر لو ورنہ دو دن کے بعد ہم علی ، طلحہ اور زبیر رضی اللہ عنہم تینوں کو قتل کر دیں گے۔ اس اعلان کو سن کر مدینہ والوں کے ہوش و حواس جاتے رہے وہ بے تابانہ اپنے اپنے گھروں سے نکل سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اسی طرح باقی دونوں حضرات کے پاس بھی مدینہ والوں کے وفود پہنچے، سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ نے تو صاف انکار کر دیا اور کہا کہ ہم خلافت کا بار اپنے کندہوں پر لینا نہیں چاہتے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بھی اوّل انکار ہی کیا تھا، لیکن جب لوگوں نے زیادہ اصرار و منت و سماجت کی تو وہ رضا مند ہو گئے، ان کے رضا مند ہوتے ہی لوگ جوق در جوق ٹوٹ پڑے، اہل مدینہ نے بھی اور بلوائیوں کی جمعیت نے بھی ان کے ہاتھ پر بیعت کی۔