کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 512
تھیں ، مدینہ کی حکومت تمام و کمال ان بلوائیوں کے ہاتھ میں تھی اوّل الذکر ہرسہ اصحاب اگرچہ بلوائیوں کی نگاہ میں خاص عزت و وقعت رکھتے تھے، لیکن اب ان سب نے اپنی اپنی عزتوں کے حفاظت کے خیال سے گھروں کے دروازے بند کر لیے تھے اور سب خانہ نشین ہو بیٹھے تھے کوئی گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ بعض ضرورتوں سے مدینہ کے باہر بھی تشریف لے جاتے تھے اور بعض کا یہ خیال ہے کہ آپ مدینہ سے باہر اسی غرض سے گئے تھے کہ ان بلوائیوں کی شرارتوں سے محفوظ رہیں ، چنانچہ جب سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، تو آپ مدینہ سے کئی میل کے فاصلے پر تھے۔ [1] مدینہ منورہ میں بلوائیوں کی حکومت: مصر، کوفہ اور بصرہ کے باغیوں نے جب سے مدینہ منورہ میں داخل ہو کر سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو گھر سے نکلنے اور مسجد میں آنے سے روک دیا تھا، اسی روز سے مدینہ منورہ میں ان کی حکومت تھی، لیکن چونکہ خلیفہ وقت (گو حالت محاصرہ ہی میں کیوں نہ ہو) موجود تھا، لہٰذا بلوائیوں کی ظالمانہ حکومت کو حکومت کے نام سے تعبیر نہیں کی جا سکتا، لیکن سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کے بعد مدینہ میں قریباً ایک ہفتہ غافقی بن حرب عکی بلوائیوں کے سردار کی حکومت رہی، وہی ہر ایک حکم جاری کرتا، اور وہی نمازوں کی امامت کراتا تھا۔ ان بلوائیوں میں بعض لوگ مآل اندیش اور سمجھ دار بھی تھے، انہوں نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر ہم لوگ اسی طرح قتل عثمان رضی اللہ عنہ کے بعد یہاں سے منتشر ہو گئے، تو ہمارے لیے بھی کوئی نیک نتیجہ نہیں پیدا ہو سکتا، ہم جہاں ہوں گے قتل کیے جائیں گے، اور یہ شورش محض فسادات اور بغاوت سمجھی جائے ،گی، پھر اس طرح کبھی ہم جائز احتجاج کا جامہ نہیں پہنا سکیں گے، لہٰذا انہوں نے آپس میں مشورہ کر کے سب کو اس بات پر آمادہ کیا کہ اب کسی کو جلد خلیفہ منتخب کراؤ، اور بغیر خلیفہ منتخب کرائے ہوئے یہاں سے واپس ہونے اور جانے کا نام نہ لو۔انھی ایام شورش کے دوران میں یہ اطمینان کر لینے کے بعد کوفہ و بصرہ سے بھی اس تجویز و قرار داد کے موافق لوگ روانہ ہو کر مدینہ پہنچ گئے، عبداللہ بن سبا بھی مصر سے روانہ ہوا اور نہایت غیرمشہور اور غیر معلوم طریقے پر مدینہ میں داخل ہو کر اپنے ایجنٹوں اور دوستوں میں شامل ہو گیا، چونکہ بلوائیوں کے اس تمام لشکر میں سب کے سب ہی ایسے اشخاص نہ تھے جو عبداللہ بن سبا کے راز دار ہوں بلکہ بہت سے بے وقوف و واقعہ پسند اور دوسرے ارادوں کے لوگ تھے، لہٰذا عبداللہ بن سبا نے یہاں آ کر خود کوئی سرداری یا نمبرداری کی شان مصلحتاً حاصل نہیں کی بلکہ اپنے دوسرے ایجنٹوں ہی کے
[1] مگر تاریخی روایتیں بتاتی ہیں کہ اس وقت وہ مدینہ میں تھے، اور مسجد نبویؐ میں بیٹھے تھے۔