کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 511
قرآن کریم کی اشاعت اور قرآن کریم کی ایک قرائت یہ سب کو جمع کرنا اوپر مذکور ہو چکا ہے، مسجد نبویؐ کی توسیع کا حال بھی اوپر آ چکا ہے۔ آپ نے روزینوں کی تقسیم اور وظائف کے دینے کے لیے ایام و اوقات مقرر کر رکھے تھے، ہر ایک کام وقت پر اور باقاعدہ کرنے کی آپ کو عادت تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ ، سیّدنا عمرفاوق رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمعہ کے دن اذان اس وقت ہوتی تھی، جب امام منبر پر جاتا تھا، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں لوگوں کی کثرت ہوئی تو آپ نے حکم دیا، کہ خطبہ کی اذان سے پہلے بھی ایک اذان ہوا کرے، چنانچہ اس وقت سے لے کر آج تک جمعہ کے دن یہ اذان دی جاتی ہے۔ بعض ضروری اشارات : جس وقت بلوائیوں نے مدینہ منورہ میں داخل ہو کر بدتمیزیاں شروع کر دی تھیں ، اس وقت سیّدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا مدینہ سے مکہ کی جانب حج کے لیے روانہ ہوئیں ، حج سے فارغ ہو کر آپ مدینہ منورہ کو واپس آ رہی تھیں ، کہ مقام سرف میں بنی لیث کے ایک شخص عبیدبن ابی سلمہ نامی کے ذریعہ یہ خبر سنی، کہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بلوائیوں نے شہید کر دیا، یہ سن کر آپ مکہ واپس لوٹ گئیں ۔ جس وقت بلوائیوں نے مدینہ میں ہجوم کیا تو سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ بھی مدینہ منورہ میں موجود تھے، مگر جب انہوں نے یہ دیکھا کہ بلوائیوں کی گستاخیاں اور ان کا تسلط ترقی کر کے تمام مدینہ کو مغلوب کر چکا ہے، اور شرفائے مدینہ بلوائیوں کے مقابلے میں مجبور ہو چکے ہیں ، تو عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے مع اپنے دونوں بیٹوں عبداللہ و محمد کے مدینہ سے کوچ کیا اور فلسطین میں آکر رہنے لگے، یہاں تک کہ ان کے پاس فلسطین میں عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے شہید ہونے کی خبر پہونچی۔ عبداللہ بن سعد گورنر مصر یہ سن کر کہ مدینہ منورہ میں بلوائیوں نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر رکھا ہے، مصر سے مدینے کی جانب روانہ ہوئے، مگر راستہ میں یہ سن کر عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہو گئے مصر کی جانب لوٹے، تو معلوم ہوا کہ وہاں محمد بن ابی حذیفہ نے مصر پر قبضہ کر لیا ہے، عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ مجبوراً فلسطین میں مقیم ہو گئے، اور پھر دمشق کی طرف چلے گئے۔ قتل عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے وقت مدینہ منورہ میں علی رضی اللہ عنہ ، طلحہ رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ تین بڑے اور صاحب اثر حضرات موجود تھے، ان کے علاوہ سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اور سیّدنا سعد بن ابی وقاص وغیرہ بھی اسی مرتبہ کے حضرات تشریف رکھتے تھے، مگر بلوائیوں اور باغیوں کے ہاتھوں سب کی عزتیں معرض خطر میں