کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 510
اوپر حرام کر لی تھی، کبھی جاہلیت میں بھی زنا کے پاس تک نہیں پھٹکے، نہ کبھی چوری کی، عہد جاہلیت میں بھی لوگ ان کی سخاوت سے ہمیشہ فیض یاب ہوتے رہتے تھے، ہر سال حج کو جاتے، منیٰ میں اپنا خیمہ نصب کراتے، جب تک حجاج کو کھانا نہ کھلا لیتے لوٹ کر اپنے خیمے میں نہ آتے، اور یہ وسیع دعوت صرف اپنی جیب خاص سے کرتے۔ جیش العسرۃ کا تمام سامان سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مہیا فرمایا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اہل بیت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر بار بار فاقہ کی مصیبت آتی تھی، اکثر موقعوں پر سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ہی واقف ہو کر ضروری سامان بھجواتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بار بار ان کے لیے دعا کی ہے کہ (( اللّٰھم انی قدرضیت عن عثمان فارض عنہ اللّٰہم انی قد رضیت عن عثمان فارض عنہ۔))…’’اے اللہ میں عثمان ( رضی اللہ عنہ ) سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا، اے اللہ میں عثمان ( رضی اللہ عنہ ) سے راضی ہوں تو بھی اس سے راضی ہو جا۔‘‘ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا شام سے صبح تک مانگتے رہے۔ ایک مرتبہ خلافت صدیقی رضی اللہ عنہ میں سخت قحط پڑا، لوگوں کو کھانا اور غلہ دستیاب نہ ہونے کی سخت تکلیف ہوئی، ایک روز خبر مشہور ہوئی کہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایک ہزار اونٹ غلہ سے لدے ہوئے آئے ہیں ، مدینہ کے تاجر فوراً سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور کہا کہ ہم کوڈیوڑھے نفع سے غلہ دے دو، یعنی جس قدر غلہ تم کو سو روپے میں پڑا ہے، ہم سے اس کے ڈیڑھ سو روپے لے لو، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم سب گواہ رہو کہ میں نے اپنا تمام غلہ فقراء و مساکین مدینہ کو دے دیا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب سے ایمان لائے آخر وقت تک برابر ہر جمعہ کو ایک غلام آزاد کرتے رہے، کبھی اگر کسی جمعہ کو آزاد نہ کر سکے تو اگلے جمعہ کو دو غلام آزاد کیے، ایام محاصرہ میں بھی جب کہ بلوائیوں نے آپ پر پانی تک بند کر رکھا تھا، آپ نے غلاموں کو برابر آزاد کیا، آپ خود نہایت سادہ کھانا کھاتے اور سادہ لباس پہنتے، لیکن مہمانوں کو ہمیشہ لذیذ لذیذ اور قیمتی کھانا کھلاتے تھے، عہد خلافت میں آپ نے کبھی دوسرے لوگوں پر فضیلت و برتری تلاش نہیں کی، سب کے ساتھ بیٹھتے سب کی عزت کرتے، اور کسی سے اپنی تکریم کے خواہاں نہ ہوتے تھے۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنے غلام سے کہا کہ میں نے تیرے اوپر زیادتی کی تھی تو مجھ سے اس کا بدلہ لے لے، غلام نے آپ کے کہنے سے آپ کے کان پکڑے، آپ نے اس سے کہا کہ بھائی خوب زور سے پکڑو، کیونکہ دنیا کا قصاص آخرت کے بدلے سے بہرحال آسان ہے۔