کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 509
نظر میں دوسروں سے کم اور رومیوں وغیرہ کے حملوں کی روک تھام کے خیال اور افریقہ و طرابلس وغیرہ کی حفاظت کی فکر میں اندرونی تحریکوں اور داخلی کاموں کی طرف زیادہ متوجہ نہیں ہو سکتا تھا، یہیں اس کو دو تین صحابی ایسے مل گئے جو بڑی آسانی سے اس کے ارادوں کی اعانت میں شریک و مصروف ہو گئے۔ اس نے بصرہ میں سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کی اور کوفہ میں سیّدنا زبیر کی قبولیت کو بڑھا ہوا دیکھا، لیکن وہ جانتا تھا کہ تمام عالم اسلام میں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی قبولیت ان دونوں حضرات سے بڑھ جائے گی، لہٰذا اس نے بصرہ، کوفہ ، دمشق کو بڑی آسانی سے چھوڑ دیا اور مصر میں بیٹھ کر اپنا کام اس طرح شروع کیا کہ بصرہ اور کوفہ والوں کی اس مخالفت کو ترقی دی جو ان کو بنو امیہ اور سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ پیدا ہو چکی تھی، لیکن مصر میں اس مخالفت کے پیدا کرنے اور اس کو ترقی دینے کے علاوہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی محبت اور ان کے مظلوم ہونے، حقدار خلافت ہونے، وصی ہونے وغیرہ کے خیالات کو شائع کیا، اس اشاعت میں بھی بڑی احتیاط سے کام لیا، اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے طرف داروں کی ایک زبردست جماعت بنا لینے میں کامیاب ہوا، عبداللہ بن سبا کی ان کارروائیوں نے بہت ہی جلد عالم اسلامی میں ایک شورش پیدا کر دی۔ اس شورش کے پیدا ہو جانے کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے وہ موقع جاتا رہا کہ وہ خود بنو امیہ کے راہ راست پر رکھنے کی کوشش میں کامیاب ہوتے، عبداللہ بن سبا کی شرارتوں میں غالباً سب سے پلید قسم کی شرارت یہ تھی کہ اس نے مدینہ منورہ سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف سے فرضی خطوط کوفہ و بصرہ والوں کے پاس بھجوائے اور اس طرح اپنے آپ کو بھی سیّدنا علی کا ایجنٹ یقین کرانے اور لوگوں کو دھوکا دینے میں خوب کامیاب ہوا، یہ اس کا ایسا فریب تھا کہ ایک طرف سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید ہوئے، دوسری طرف آج تک لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ نعوذ باللہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے اشارے اور سازش سے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ شہید کیے گئے، حالانکہ اس سے زیادہ غلط اور نا درست کوئی دوسری بات نہیں ہو سکتی، وہ یعنی عبداللہ بن سبانہ سیّدنا عثمان کا دوست تھا، نہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ سے اس کو کوئی ہمدردی تھی، وہ تو دونوں کا یکساں دشمن اور اسلام کی بربادی کا خواہاں تھا، اس لیے جہاں اس نے ایک طرف سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو شہید کرایا، دوسری طرف سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو شریک سازش ثابت کر کے ان کی عزت و حرمت کو بھی سخت نقصان پہنچانا چاہا۔ [1] خصائل و خصائص عثمانی رضی اللہ عنہ : عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی فطرت نہایت ہی سلیم و برد بار واقع ہوئی تھی، عہد جاہلیت ہی میں شراب اپنے
[1] مصنف کا یہ تبصرہ خاصا حقیقت پسندانہ اور محتاط ہے تاہم کسی قدر غیر ضروری نکتہ آفرینی بھی ہے۔