کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 508
محسوس کرنے کے بعد صحابہ کرام یعنی مہاجرین و انصار کی محترم جماعت اگر سہولت و معقولیت کے ساتھ لوگوں کو سمجھاتی اور اس فتنے کو نشوونما پانے سے پہلے وبا دینے کی کوشش کرتی تو اصحاب نبوی کا اتنا اثر امت محمدیہ میں ضرور موجود تھا کہ ان بزرگوں کی کوشش صدا بصحرا ثابت نہ ہوتی، بنو امیہ نے اپنا اقتدار بڑھانے کی کوششیں شروع کیں ، اس کا احساس صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کچھ عرصہ کے بعد ہوا اور جب احساس ہوا تو اسی وقت سے بھی علاج کی کوششیں شروع ہو کر کامیاب ہو سکتی تھیں ، لیکن بد قسمتی اور سوء اتفاق سے امت مسلمہ کو ایک سخت و شدید ابتلا میں مبتلا ہونا پڑا، یعنی عین اسی زمانے میں چالاک و عقل مند اور صاحب عزم و ارادہ یہودی عبداللہ بن سبا اسلام کی تخریب و مخالفت کے لیے آمادہ و مستعد ہو گیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی منافقوں کے ہاتھوں سے مسلمانوں کو بارہا ابتلا میں مبتلا ہونا پڑا، اور اب عہد عثمانی میں بھی ایک منافق یہودی مسلمانوں کی ایذا رسانی کا باعث ہوا، یہ فیصلہ کرنا دشوار ہے کہ عبداللہ بن ابی زیادہ خطرناک منافق تھا، یا عبداللہ بن سبا بڑا منافق تھا، لیکن یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ عبداللہ بن ابی کو اپنے شرارت آمیز منصوبوں میں کامیابی کم حاصل ہوئی اور نامرادی و ناکامی بیشتر اس کے حصہ میں آئی، لیکن عبداللہ بن سبا اگر خود کوئی ذاتی کامیابی حاصل نہ کر سکا تاہم مسلمانوں کی جمعیت کو وہ ضرور نقصان عظیم پہنچا سکا، کیونکہ اس نقصان عظیم کے موجبات پہلے سے مرتب و مہیا ہو رہے تھے۔ عبداللہ بن سبا کی مسلم کش کوششوں کا سب سے زبردست پہلو یہ تھا کہ اس نے بنو امیہ کی مخالفت میں یک لخت اور یکایک تمام عرب قبائل کو برانگیختہ اور مشتعل کر دیا جس کے لیے اس نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت و محبت کو ذریعہ اور بہانہ بنایا۔ جن قبائل میں اس نے مخالفت بنو امیہ اور عداوت عثمان پیدا کرنی چاہی، یہ سب کے سب وہی لوگ تھے جو اپنی فتوحات پر مغرور اور اپنے کارناموں کے مقابلے میں قریش و اہل حجاز کو خاطر میں نہ لاتے تھے، لیکن سابق الاسلام نہ تھے، بلکہ نو مسلموں میں ان کا شمار تھا، عبداللہ بن سبا نے بڑی آسانی سے بنو امیہ کے سوا باقی اہل مدینہ کو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بدگوئی اور بنو امیہ کے۔ کی عام شکایات پر آمادہ کر دیا۔ پھر وہ بصرہ کوفہ، دمشق وغیرہ فوجی مرکزوں میں گھوما، جہاں اس کو سوائے دمشق کے ہر جگہ مناسب آب و ہوا اور موافق سامان میسر ہوئے، دمشق میں بھی اس کو کم کامیابی نہیں ہوئی کیونکہ یہاں بھی اس نے سیّدنا ابوذر غفاری والے واقعہ سے خوب فائدہ اٹھایا، آخر میں وہ مصر پہنچا اور تمام مرکزی مقاموں کے اندر جہاں وہ خود سامان فراہم کر آیا تھا مصر میں بیٹھے بیٹھے اپنی تحریک کو ترقی دی، مصر کو اس نے اپنا مرکز اس لیے بنایا کہ یہاں کا گورنر عبداللہ بن سعد خود مختاری میں تو دوسرے گورنروں سے بڑھا ہوا لیکن دقت