کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 507
تھا، نہ اس لیے کہ وہ آپ کا رشتہ دار تھا بلکہ اس لیے کہ وہ تقویٰ اور روحانیت میں ناقص اور اس مرتبہ جلیلہ کا اپنی قابلیت و خصائل کے اعتبار سے اہل اور حق دار نہ تھا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلیفہ ہوتے ہی ایرانی صوبوں میں جگہ جگہ بغاوتیں ہوئیں ، مگر اسلامی فوجوں نے باغیوں کی ہر جگہ گوشمالی کی، اور تمام بغاوت زدہ علاقوں میں پھر امن و امان اور اسلامی حکومت قائم کر دی، ان بغاوتوں کے فرد کرنے میں ایک یہ بھی فائدہ ہوا، کہ ہر باغی صوبہ کے سرحدی علاقوں کی طرف بھی توجہ کی گئی ، اور اس طرح بہت سے نئے علاقے بھی مسلمانوں کے قبضے میں آ گئے۔ مثلاً: جنوبی ایران کی بغاوت فرد کرنے کے سلسلہ میں سیستان و کرمان کے صوبوں پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوا، شمالی و مشرقی ایران کی بغاوتوں ، ترکوں اور چینیوں کی چڑھائیوں کے انسداد کی کوششوں کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہرات، کابل، بلخ اور جیحون پار کے علاقوں پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا، رومیوں نے مصر و اسکندریہ پر چڑھائیاں کیں جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ رومیوں کو مسلمانوں نے شکست دے کر بھگایا، اور جزیرہ قبرص اور روڈس پر مسلمانوں کا قبضہ ہو گیا، افریقہ کے رومی گورنر نے فوجیں جمع کر کے مصر کی اسلامی فوج کو دھمکانا چاہا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ برقہ، طرابلس تک کا علاقہ مسلمانوں کے قبضہ میں آ گیا، اسی طرح ایشیائے کوچک کی رومی فوجوں نے بھی ہاتھ پاؤں ہلانے چاہے، مسلمانوں نے ان کو قرار واقعی سزا دے کر آرمینیاء و طفلس تک کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔ غرض سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بہت کافی اور اہم فتوحات مسلمانوں کو حاصل ہوئی، اور حکومت اسلامیہ کے حدود پہلے سے بہت زیادہ وسیع ہو گئے، ایران و شام و مصر وغیرہ ملکوں میں سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے حکم کے موافق گورنروں نے سڑکیں بنوانے، مدرسے قائم کرنے تجارت و حرفت اور زراعت کو فروغ دینے کی کوششیں کیں ، یعنی سلطنت اسلامیہ نے اپنی ظاہری ترقی کے ساتھ ہی معنوی ترقی بھی کی، لیکن یہ تمام ترقیات زیادہ تر خلافت عثمانی کے نصف اوّل یعنی ابتدائی چھ سال میں ہوئیں ، نصف آخری یعنی چھ سال کے عرصہ میں اندرونی اور داخلی فسادات کی پیدائش اور نشوونما ہوتی رہی، اس سے پیشتر مسلمانوں کا مطمح نظر اور قبلہ توجہ اشاعت اسلام اور شرک شکنی کے سوا اور کچھ نہ تھا، لیکن اب وہ توجہ آپس کی مسابقت اور برادر افگنی میں بھی صرف ہونے لگی، بنو امیہ نے مدینہ منورہ میں اپنی تعداد اور اثر کو بڑھا لیا، اور اطراف و جوانب کے صوبوں اور ملکوں میں بھی ان کا اثر روز افزوں ترقی کرنے لگا۔ یہ ضروری نہ تھا کہ بنو امیہ کے اس طرز عمل کو دیکھ کر دوسرے مسلمان قبائل موافقت یا مخالفت میں بے سوچے سمجھے حصہ لینے لگتے اور قومی جانب داری کی آگ میں کود پڑتے بلکہ بنو امیہ کی غلط کاریوں کو