کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 506
ہونے لگی، دوسری طرف خلیفہ وقت کا رعب و اقتدار دلوں سے کم ہونے لگا، اس حالت میں شہرت پسند اور جاہ طلب لوگوں کو اپنی اولوالعزمیوں کیاظہار اور اپنے ارادوں کے پورا کرنے کی کوششوں کا موقع ملنے لگا، قریشیوں اور حجازیوں میں جو اس قسم کے اولوالعزم اشخاص تھے، ان کو بڑی آسانی کے ساتھ نو مسلم قبائل کی حمایت اور فتح مند لشکریوں کی اعانت و حمایت حال ہونے لگی۔ خلیفہ وقت کے رعب و اقتدار کی گرفت بھی کم ہو گئی تھی، مہاجرین و انصار اور قریشیوں کا اقتدار بھی نو مسلم بہادروں کی کثرت کے سبب ہلکا پڑنے لگا تھا، مدینہ منورہ میں بھی با اثر اور طاقتور لوگوں کی یک دل جمعیت کمزور ہو کر قریباً معدوم ہو چکی تھی، لہٰذا بنو امیہ نے ان تمام باتوں سے فائدہ اٹھانے میں کمی نہیں کی، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی نرم مزاجی سے تو انہوں نے یہ فائدہ اٹھایا کہ مروان بن الحکم کو ان کا میر منشی ہونے کی حالت میں بنو امیہ کا ایسا طرف دار و حامی بنایا کہ اس نے جا اور بے جا ہمہ وقت اور بہر طور بنو امیہ کو فائدہ پہنچوانے، آگے بڑھانے،طاقت ور بنانے میں مطلق کوتاہی نہیں کی۔ جب ملکوں اور صوبوں کی گورنریاں زیادہ تر بنو امیہ ہی کو مل گئیں ، اور تمام ملک اسلامیہ میں ہر جگہ بنو امیہ ہی حاکم اور صاحب اختیار نظر آنے لگے، تو انہوں نے اپنے اقتدار رفتہ کے واپس لینے، یعنی بنو ہاشم کے مقابلہ میں اپنا مرتبہ بلند قائم کرنے کی کوششیں کیں ، اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ بنو ہاشم اور دوسرے قبائل کو بھی بنو امیہ کی ان کوششوں کا احساس ہوا، یہ کہنا کہ خود سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ بنو امیہ کی ایسی کوششوں کے محرک اور خواہش مند تھے سراسر بہتان و افتراء ہے، کیونکہ ان کے اندر کسی سازش، کسی پالیسی یا کسی منافقت کا نام و نشان تک بھی نہیں بتایا جا سکتا، ان کی نرم مزاجی و درگزر اور رشتہ داروں کے ساتھ نیک سلوک سے پیش آنے کی دونوں صفتوں نے مل کر بنو امیہ کو موقع دیا کہ وہ اپنے قومی و خاندانی اقتدار کے قائم کرنے کی تدبیروں میں مصروف ہوں اور اس طرح عہد جاہلیت کی فراموش شدہ رقابتیں پھر تازہ ہو جائیں ، ان رقابتوں کو نتیجہ خیز بنانے کے لیے مال و دولت کی فراوانی اور عیش و تن آسانی کی خواہش نے اور بھی سہارا دیا، اس قسم کی باتوں کا وہم و گمان بھی صدیقی وفاروقی خلافتوں کے زمانہ میں کسی کو نہیں ہو سکتا تھا۔ اس موقع پر مجبوراً یہ کہنا پڑتا ہے کہ اگرچہ خاندان والوں اور رشتہ داروں کے ساتھ احسان کرنا ایک خوبی کی بات ہے، لیکن اس اچھی بات پر ایک خلیفہ کو عمل درآمد کرانے کے لیے بڑی ہی احتیاط کی ضرورت ہے اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے شاید کما حقہ احتیاط کے برتنے میں کمی ہوئی اور مروان بن الحکم اپنے چچا زاد بھائی کو آخر وقت تک اپنا کاتب، یعنی میر منشی اور وزیر و مشیر رکھنا تو بلاشک احتیاط کے خلاف