کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 503
پھیل گئی۔ یہ حادثہ ۱۸ ذی الحجہ ۳۵ ھ یوم جمعہ کو وقوع پذیر ہوا، تین دن تک سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی لاش بے گورو کفن پڑی رہی، آخر حکیم بن حزام اور جبیر بن مطعم دونوں سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، انہوں نے دفن کرنے کی اجازت دی، رات کے وقت عشاء و مغرب کے درمیان جنازہ لے کر نکلے، جنازہ کے ساتھ زبیر، حسن، ابوجہم بن حذیفہ، مردان وغیرہ تھے، بلوائیوں نے جنازہ کی نماز پڑھنے اور دفن کرنے میں بھی رکاوٹ پیدا کرنا چاہی مگر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو معلوم ہوا تو انہوں نے سختی سے ان کو منع کیا، جبیر بن مطعم نے جنازہ کی نماز پڑھائی، بغیر غسل کے انھی کپڑوں میں جو پہنے ہوئے تھے دفن کیے گئے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت مندرجہ ذیل عامل و امیر ممالک اسلامیہ میں مامور تھے، عبداللہ بن الحضرمی مکہ میں ، قاسم بن ربیعہ ثقفی طائف میں ، یعلیٰ بن منیہ صنعاء یمن میں ، عبداللہ بن ربیعہ ہمدان میں ، عبداللہ بن عامر بصرہ میں ، معاویہ بن ابی سفیان ملک شام میں ، عبدالرحمن بن ابی خالد حمص میں ، حبیب بن مسلمہ قنسرین میں (ابوالاعور سلمی اردن میں ، عبداللہ بن قیس فزاری بحرین میں ، علقمہ بن حکیم کندی معاویہ کی طرف سے فلسطین میں ، ابوموسیٰ اشعری کوفہ میں امام اور قعقاع بن عمروسالار لشکر تھے، جابر مزنی اور سماک انصاری دونوں خراج سواد پر مامور تھے، جریر بن عبداللہ قرقیسیا میں ، اشعث بن قیس آذربائیجان میں ، سائب بن اقرع اصفہان میں ، گورنر مقرر تھے مدینہ منورہ میں بیت المال کے افسر عقبہ بن عمرو اور قضا پر زید بن ثابت مامور تھے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ۸۲ سال کی عمر میں بارہ سال خلافت کر کے فوت ہوئے جنتہ البقیع کے قریب مدفون ہوئے، آپ کے کل گیارہ بیٹے اور چھ بیٹیاں ہوئی تھیں ۔ خلافت عثمانی پر ایک نظر: خلافت عثمانی کے واقعات پڑھ کر بے اختیار قلب پر یہ نمایاں اثر ہوتا ہے کہ ہم عہد نبوی اور خلافت صدیقی و فاروقی کے زمانے کو طے کر کے کسی نئے زمانے میں داخل ہوتے ہیں ، اس زمانے کی آب و ہوا بھی نئی ہے اور لوگوں کی وضع قطع میں بھی غیر معمولی تغیر پیدا ہو گیا ہے، زمین و آسمان غرض ہر چیز کی کیفیت متغیر ہے، خلافت فاروقی تک مسلمانوں کی نگاہ میں مال و دولت کی کوئی وقعت و قیمت نہ تھی، خود خلیفہ کی یہ حالت ہوتی تھی کہ اپنے اہل و عیال کی ضروریات پورا کرنے کے لیے دوسرے لوگوں سے بھی بہت ہی کم روپیہ اس کے ہاتھ میں آتا تھا، اور اس بے زری و افلاس کو نہ خلیفہ وقت کوئی مصیبت تصور فرماتا تھا، نہ عام لوگ مال و دولت کی طرف خواہش مند نظر آتے تھے مسلمانوں کی سب سے بڑی خواہش