کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 502
سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مکان میں جس قدر آدمی تھے ان میں سے کچھ تو کوٹھے پر چڑھے ہوئے تھے اور باغیوں کی کوشش اور نقل و حرکت کے نگراں تھے کچھ لوگ دروازے پر تھے اور باہر سے داخل ہونے اور گھسنے والے بلوائیوں کو اندر آنے سے روک رہے تھے، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کی بیوی نائلہ بنت الفرافصہ گھر میں تھے۔ بلوائیوں نے ہمسایہ کے ایک گھر میں داخل ہو کر اور دیوار کود کر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ پر حملہ کیا، سب سے پہلے محمد بن ابی بکر سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے قریب پہنچا اور ان کی داڑھی پکڑ کر کہا کہ اے نعثل (احمق بوڑھے) اللہ تعالیٰ تجھ کو رسوا کرے، سیّدنا عثمان نے کہا کہ میں نعثل نہیں ، بلکہ عثمان امیر المومنین ہوں ، محمد بن ابی بکر نے کہا کہ تجھ کو اس بڑھاپے میں بھی خلافت کی ہوس ہے، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تمہارے باپ ہوتے تو وہ میرے اس بڑھاپے کی قدر کرتے اور میری اس ڈاڑھی کو اس طرح نہ پکڑتے، محمد بن ابی بکر یہ سن کر کچھ شرما گیا اور ڈاڑھی چھوڑ کر واپس چلا آیا۔ اس کے واپس چلے جانے کے بعد بدمعاشوں کا ایک گروہ اسی طرف سے دیوار کود کر اندر آیا جس میں بلوائیوں کا ایک سرغنہ عبدالرحمن بن عدیس، کنانہ بن بشر، عمروبن حمق، عمیر بن جنابی، سودان بن حمران، غافقی تھے، کنانہ بن بشر نے آتے ہی سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر تلوار چلائی، ان کی بیوی نائلہ نے فوراً آگے بڑھ کر تلوار کو ہاتھ سے روکا، ان کی انگلیاں کٹ کر الگ جا پڑیں پھر دوسرا وار کیا، جس سے آپ شہید ہو گئے، اس وقت آپ قرآن کی تلاوت میں مصروف تھے، خون کے قطرات قرآن شریف کی اس آیت پر گرے ﴿فَسَیَکْفِیْکَہُمُ اللّٰہُ وَ ہُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (البقرۃ : ۲/۱۳۷) عمرو بن حمق نے آپ پر نیزے کے نو زخم پہنچائے۔ عمیر بن جنابی نے آگے بڑھ کر ٹھوکریں ماریں جس سے آپ کی پسلیاں ٹوٹ گئیں ، وہ ہر ٹھوکر لگاتے ہوئے کہتا جاتا تھا، کیوں تم نے ہی میرے باپ کو قید کیا تھا جو بے چارہ حالت قید ہی میں مر گئے تھے، گھر کے اندر یہ قیامت برپا ہو گئی، چھت والوں اور دروازے والوں کو خبر ہی نہ ہوئی، آپ کی بیوی نائلہ نے آوازیں دیں تو لوگ چھت پر سے اترے اور دروازے کی طرف سے اندر متوجہ ہوئے، بلوائی اپنا کام کر چکے تھے، وہ بھاگے، بعض ان میں سے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے غلاموں کے ہاتھ سے مارے گئے، اب نہ کسی کو دروازے پر رہنے کی ضرورت تھی نہ کسی کی حفاظت باقی رہی تھی، چاروں طرف سے بلوائیوں بدمعاشوں نے زور کیا، گھر کے اندر داخل ہو کر تمام گھر کا سامان لوٹ لیا، حتی کہ جسم کے کپڑے تک بھی نہ چھوڑے، اس بدامنی اور ہلچل کے عالم میں بجلی کی طرح تمام مدینہ میں عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر