کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 501
سے باہر نکلتے تھے نہ کسی سے ملتے تھے، سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر موجود رہ کر بلوائیوں کا مقابلہ کیا اور ان کو روکا، لیکن ان کو سیّدنا عثمان غنی نے امیر الحاج بنا کر باصرار مکہ کی طرف روانہ کیا ورنہ وہ فرماتے تھے کہ مجھ کو ان بلوائیوں سے جہاد کرنا حج کرنے سے زیادہ محبوب ہے، حسن بن علی، عبداللہ بن زبیر، محمد بن طلحہ، سعید بن العاص رضی اللہ عنہم نے دروازہ کھولنے سے بلوائیوں کو روکا اور لڑ کر ان کو پیچھے ہٹا دیا۔ لیکن سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کو قسمیں دے کر لڑنے سے روکا اور گھر کے اندر بلا لیا، بلوائیوں نے دروازے کو آگ لگا دی اور اندر گھس آئے، ان لوگوں نے ان کو پھر مقابلہ کر کے باہر نکال دیا، اس وقت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ قرآن شریف پڑھ رہے تھے جب اس آیت پر پہنچے۔ ﴿اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا وَّ قَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَ نِعْمَ الْوَکِیْلُ﴾ (آل عمران : ۳/۱۷۳) ’’یہ وہ لوگ ہیں جن کو لوگوں نے آ کر خبر دی کہ مخالف لوگوں نے تمہارے ساتھ لڑنے کے لیے بھیڑ جمع کی ہے، ذرا ان سے ڈرتے رہنا، تو اس خبر کو سن کر ان کے ایمان اور بھی زیادہ مضبوط ہو گئے اور بول اٹھے کہ ہم کو اللہ ہی کافی ہے، اور وہ بہترین کار ساز ہے۔‘‘ تو حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے ایک عہد لیا ہے، میں اپنے اس عہد پر قائم ہوں ، اور تم ہرگز ان بلوائیوں کا مقابلہ اور ان سے قتال بالکل نہ کرو، سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ تم ابھی اپنے باپ کے پاس چلے جاؤ، لیکن انہوں نے جانا پسند نہ کیا اور دروازے پر بلوائیوں کو روکتے رہے۔ مغیرہ بن الاخنس رضی اللہ عنہ یہ حالت دیکھ کر تاب نہ لا سکے، اپنے چند آدمیوں کو لے کر بلوائیوں کے مقابلے پر آئے اور لڑ کر شہید ہوئے، اسی طرح سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی یہ کہتے ہوئے ﴿وَیَاقَوْمِ مَا لِی اَدْعُوْکُمْ اِِلَی النَّجَاۃِ وَتَدْعُوْنَنِیْ اِِلَی النَّارِ﴾(المؤمن : ۴۰/۴۱) (لوگو! مجھے کیا ہوا ہے کہ میں تم کو نجات کی طرف بلاتا ہوں اور تم مجھے آگ کی طرف بلاتے ہو) بلوائیوں پر ٹوٹ پڑے، سیّدنا عثمان غنی کو جب معلوم ہوا تو انہوں نے باصرار سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو واپس بلوایا اور لڑائی سے باز رہنے کاحکم دیا، اسی عرصہ میں سیّدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ تشریف لائے، انہوں نے بلوائیوں کو سمجھانا اور فتنہ سے باز رکھنا چاہا، لیکن بجائے اس کے کہ ان کی نصیحت کا بلوائیوں پر کچھ اثر ہوتا وہ سیّدنا عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ سے بھی لڑنے پر آمادہ ہو گئے۔