کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 500
انہوں نے فوجی تدابیر شروع کر دیں ، اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ایک متصلہ مکان میں داخل ہو کر اور دیوار کود کر ایک جماعت ان کے مکان کے اندر داخل ہو گئی۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت: بلوائیاں مصر نے جب مدینہ میں دوبارہ واپس آ کر خط لوگوں کو دکھایا اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حلفیہ اس خط سے اپنی لا علمی کا اظہار کیا، تو عبدالرحمن بن عدیس نے جو بلوائی سرغنہ تھا کہا کہ تم اپنے اس قول اور حلف میں جھوٹے ہو تب بھی اور سچے ہو تب بھی تمہارا خلیفہ رکھنا کسی طرح جائز نہیں کیونکہ اگر تم جھوٹ بول رہے ہو تو جھوٹے کو مسلمانوں کا خلیفہ نہیں ہونا چاہیے اور اگر سچے ہو تو ایسے ضعیف خلیفہ کو جس کی اجازت و اطلاع کے بغیر جو جس کا جی چاہے حکم لکھ کر بھیج دے خلیفہ نہیں رکھنا چاہیے۔ عبدالرحمن بن عدیس نے سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ خود ہی خلافت کو چھوڑ دیں ، انہوں نے جواب دیا کہ میں اس کرتے کو جو اللہ تعالیٰ نے مجھے پہنایا ہے خود نہیں اتاروں گا، یعنی خلافت کے منصب کو خود نہیں چھوڑوں گا، اس کے بعد بلوائیوں نے ان کے مکان کا محاصرہ کر لیا اور سختی شروع کی، جب خلیفہ وقت پر پانی بھی بند کر دیا گیا اور پانی کی نایابی سے تکلیف و اذیت ہوئی تو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اپنے مکان کی چھت پر چڑھے اور اپنے حقوق جتائے اور اپنا سابق الایمان ہونا بھی لوگوں کو یاد دلایا، اس تقریر کا بلوائیوں پر کچھ ایسا اثر ہوا کہ ان میں سے اکثر یہ کہنے لگے کہ بھائی اب ان کو جانے دو اور ان سے درگزر کرو، لیکن اتنے میں مالک بن اشتر آگیا، اس نے لوگوں کے مجمع کو پھر سمجھایا کہ دیکھو کہیں دام فریب میں نہ آ جانا، چنانچہ لوگ پھر مخالفت پر آمادہ ہو گئے۔ بلوائیوں کو جب یقین ہو گیا کہ ممالک اسلامیہ سے جو فوجیں آئیں گی وہ ضرور سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی حامی اور ہماری مخالف ہوں گی، تو انہوں نے، یعنی ان کے سرداروں نے سیّدنا عثمان غنی کے شہید کر دینے کا مصمم ارادہ کر لیا۔ انھی ایام میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حج کا ارادہ کیا اور اپنے بھائی محمد بن ابی بکر کو بلوایا کہ وہ ہمارے ساتھ چلیں تو محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ جانے سے صاف انکار کر دیا، کیونکہ وہ بلوائیوں کے ساتھ شیروشکر ہو رہے تھے، سیّدنا حنظلہ کاتب وحی نے کہا کہ تم ام المومنین کے ساتھ نہیں جاتے اور مفہاء عرب کی پیروی کرتے ہو، یہ تمہاری شان سے بعید ہے، محمد بن ابی بکر نے ان کی باتوں کا کوئی جواب نہ دیا، پھر حنظلہ کوفہ کی طرف چلے گئے۔ سیدنا طلحہ اور سیّدنا زبیر اور دوسرے صحابیوں رضی اللہ عنہم نے اپنے اپنے دروازے بند کر لیے تھے، نہ گھر