کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 50
اور مزدور پیشہ لوگوں کے درمیان وہ کشمکش پیدا ہی نہیں ہو سکتی جس میں آج تمام یورپ گرفتار ہے۔ مسلمانوں کا خلیفہ مسلمانوں کا چوکیدار و پاسبان بھی ہوتا ہے اور ان کا سرپرست و مربی بھی، وہ مسلمانوں کا باپ بھی ہوتا ہے اور ان کا استاد بھی۔ مسلمانوں کا خلیفہ مسلمانوں کا اتالیق بھی ہوتا ہے اور ان کا سپہ سالار بھی، وہ مسلمانوں کا خادم بھی ہوتا ہے اور ان کا حاکم بھی، اگر کوئی اہم معاملہ پیش آ جائے مثلاً کسی ملک پر چڑھائی یا کسی قوم سے لڑائی کرنی ہو، کسی سے صلح کرنی ہو، کسی کی مدد کے لیے فوج بھیجنی ہو، مسلمانوں کی حفاظت اور ملک کے امن و امان کی خاطر کون سی مؤثر تدابیر اختیار کرنی چاہیے وغیرہ ایسے تمام اہم معاملات میں مسلمانوں کا خلیفہ مسلمانوں سے ضرور مشورہ کرتا ہے، کیونکہ قرآن کریم نے ایسا ہی حکم دیا ہے لیکن اس مشورہ کی غرض یہ نہیں ہوتی کہ عام لوگ اپنی کثرت رائے سے خلیفہ وقت اور ملک و قوم کے حکمران کی رائے کو معطل کر کے اس کے خلاف منشاء عمل در آمد کرانے پر مجبور کر سکیں بلکہ اس مشورہ کا منشاء صرف یہ ہوتا ہے کہ خلیفہ وقت کو ایک رائے قائم کر لینے میں مدد ملے، یعنی خلیفہ سب کی رائے سنتا اور مخالف و موافق دلائل سے آگاہی حاصل کرتا اور آخر میں ایک بہترین رائے قائم کر کے اس پر عمل درآمد شروع کردیتا ہے۔ ﴿وَ شَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِ فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ﴾ (’’اور دین کے کام میں ان (مسلمانوں ) کو بھی شریک مشورہ رکھو، پھر جب تمہارا عزم کسی رائے پر مستحکم ہو جائے تو اللہ پر بھروسہ کرو۔‘‘ (آل عمران : ۳/۱۵۹)…) مذکورہ بالا نظام حکومت جو اسلام قائم کرنا چاہتا ہے خلافت راشدہ میں اس کا نمونہ نظر آ سکتا ہے، خلافت راشدہ کے بعد مسلمانوں کی حکومت کا نظام عام طور پر شخصی وراثتی سلطنت میں تبدیل ہو گیا، لیکن تعلیم اسلام کی خوبیاں اور اسلامی اخلاق کے جلوے اکثر ملکوں اور اکثر خاندانوں کی حکومت میں نمایاں طور پر نظر آتے رہے اور مجموعی طورپر مسلمانوں نے جیسی حکومت کی ایسی اچھی اور قابل تعریف حکومت کسی دوسری قوم کو میسر نہیں آئی، جمہوری حکومت جس کی مثالیں یورپ و امریکہ پیش کر رہے ہیں ہرگز ہرگز اس نظام حکومت کا مقابلہ نہیں کر سکتی جو اسلام دنیا میں قائم کرنا چاہتا ہے۔ ہمارا نقطہ آغاز : عام طور پر مسلمان مؤرخین نے اپنی کتابوں میں آدم علیہ السلام بلکہ بعض نے تو پیدائش زمین و آسمان سے شروع کیا ہے، میں اپنی تاریخ اسلام کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شروع کرنا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کے حالات شک و اشتباہ سے خالی نہیں ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ سے پہلے دنیا میں تاریخ نویسی کا کوئی خاص اہتمام بھی نہیں تھا۔ نیز یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے تاریخ اسلام کی ابتدا بھی سمجھی