کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 499
دوسرے سرداروں کو ناخوش کرنے اور جلی کٹی باتوں کے کہنے کی غلطی بار بار کی۔ کئی مرتبہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنی پاک باطنی اور نیک نیتی سے بگڑے ہوئے معاملے کو سلجھا بھی لیا اور اعیان قریش و انصار کی حمایت بھی حاصل کرلی لیکن اس شخص مروان بن حکم نے عین وقت پر اپنی دریدہ دہنی اور بدلگامی سے بنے بنائے کام کو بگاڑ دیا۔ مروان بن حکم کی شرارتیں : عثمان غنی رضی اللہ عنہ ایک بامروت اور نرم مزاج انسان تھے۔ اسی لیے مروان کو اس جرائت اور دیدہ دلیری کا موقع ملتا رہا۔ مروان اور اس کے باپ حکم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے خارج کردیا تھا اور ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے اپنے عہد خلافت میں ان باپ بیٹوں کو مدینہ میں داخل ہونے نہ دیا تھا۔ لیکن جب عثمان غنی رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو انھوں نے مروان کو مدینہ میں بلالیا اور قرابت و رشتہ داری کے خیال سے ان پر احسان کرنا ضروری سمجھ کر اپنا میر منشی بنالیا۔ کاتب یعنی میر منشی بن کر مروان نے خلیفہ کے مزاج میں اور بھی زیادہ دخل پالیا۔ یہی وجہ تھا کہ باشندگان مدینہ مروان بن حکم سے ناراض تھے اور ان ایام محاصرہ اور چہل روز بدامنی کے دوران میں اہل مدینہ نے باغیوں اور بلوائیوں کے ساتھ مل کر کئی مرتبہ مروان کے مطالبہ کی آواز بلند کرائی اور عثمان رضی اللہ عنہ مروان کو بلوائیوں کے سپرد کردیتے تو یقینا یہ فتنہ بھی فرو ہوجاتا کیونکہ کم از کم مدینہ میں تو کوئی شخص عثمان رضی اللہ عنہ کا مخالف باقی نہ رہتا۔ مدینہ کے ہر شخص کو اگر ملال تھا تو مروان سے تھا۔ عثمان رضی اللہ عنہ سے کسی کو کوئی خصوصی عناد اور عداوت نہ تھی۔ عثمان رضی اللہ عنہ نے مروان کو ان کے سپرد کرنے میں اس لیے انکار کیا کہ ان کو یقین تھا کہ یہ لوگ مروان کو فوراً قتل کردیں گے۔ لہٰذا انھوں نے پسند نہ کیا کہ مروان کے قتل کا موجب بنیں ۔ جب بلوائیوں نے زیادہ شورش برپا کی، اور یہ معلوم کیا کہ اب بلوائی سیّدنا عثمان کے مکان کا دروازہ گرا کر اندر داخل ہونا اور ان کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے صاحبزادوں سیّدنا حسن و حسین رضی اللہ عنہما کو بھیجا کہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دروازے پر مسلح موجود رہو اور بلوائیوں کو مکان کے اندر داخل ہونے سے روکو، اسی طرح سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی اپنے اپنے صاحبزادوں کو سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دروازے پر بھیج دیا، ان صاحبزادوں نے دروازے پر پہنچ کر بلوائیوں کو روکا اور ان کو اس لیے مجبوراً رکنا پڑا کہ اگر ان میں کسی کو کوئی صدمہ پہنچ جاتا، تو تمام بنی ہاشم کے مخالف اور درپے مقابلہ ہونے کا اندیشہ تھا۔ ادھر بلوائیوں کو اس بات کا اندیشہ تھا کہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عاملوں نے محاصرہ کی خبریں سن کر ضرور مدینہ کی طرف فوجیں روانہ کی ہوں گی اگر وہ فوجیں پہنچ گئیں تو پھر مقصد برآری دشوار ہو گی، لہٰذا