کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 498
بصرہ سے نیک دل لوگوں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے مدینہ کی طرف لوگوں کو روانہ ہونے اور خلیفہ وقت کی مدد کرنے کی ترغیب دی۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے حبیب بن مسلمہ فہری کو اور عبداللہ بن سعد نے معاویہ بن حدیج کو روانہ کیا، کوفہ سے قعقاع بن عمرو ایک جمعیت کے ساتھ روانہ ہوئے، اسی طرح بصرے سے بھی ایک جمعیت روانہ ہوئی، ان خبروں کے پہنچنے اور ان امدادی جمعیتوں کے روانہ ہونے میں ضرور کچھ نہ کچھ تامل واقع ہوا، کیونکہ ان میں سے کوئی بھی سیّدنا عثمان غنی کی شہادت سے پہلے مدینہ میں نہ پہنچ سکا، سب نے راستے ہی میں واقعہ شہادت کا حال سنا اور راستے ہی سے اپنے اپنے صوبوں کی طرف واپس روانہ ہو گئے۔ تیس دن تک حالت محاصرہ میں سیّدنا عثمان غنی نمازوں کے لیے مسجد میں آتے رہے، اس کے بعد بلوائیوں نے ان کا گھر سے نکلنا اور گھر میں پانی کا جانا بند کر دیا، سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے ہر چند کہا کہ تم عینی شاہد پیش کرو کہ میں نے یہ خط لکھا ہے جس کو تم نے بہانہ بنایا ہے یا مجھ سے قسم لے لو، مجھ کو اس کا کوئی علم نہیں ہے، بلوائیوں نے کسی کی کوئی معقول بات پھر سننی پسند نہ کی، ایک عام افراتفری اور ہلچل کا زمانہ تھا، سیّدنا عثمان غنی پر بلوائیوں نے پانی کا جانا بند کیا تو ان کو بڑی تکلیف ہوئی، پھر ایک ہمسایہ کے ذریعے پوشیدہ طور پر پانی گھر میں پہنچتا رہا۔ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کی امامت: سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب خود مسجد میں نہ آ سکے تو انہوں نے نمازوں کی امامت کے لیے ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ کو مقرر فرمایا، لیکن چند روز کے بعد بلوائیوں کے سردار غافقی بن حرب عکی نے خود نمازوں کی امامت شروع کر دی، مصر میں جس طرح محمد بن ابی بکر سیّدنا عثمان کے خلاف کوشش فرماتے تھے، اسی طرح محمد بن حذیفہ بھی مخالفت عثمانی میں مصروف تھے، جب مصر سے عبدالرحمن بن عدیس کی سرکردگی میں قافلہ روانہ ہوا تو محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ ان لوگوں کے ساتھ مدینہ منورہ میں آئے تھے، لیکن محمد بن حذیفہ وہیں مصر میں رہ گئے تھے، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے محاصرہ کی خبر جب مصر میں پہنچی تو عبداللہ بن سعد وہاں سے خود ایک جمعیت لے کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے، جب مقام رملہ میں پہنچے تو ان کے پاس خبر پہنچی کہ محمد بن حذیفہ نے مصر پر قبضہ کر لیا ہے، یہ سن کر وہ واپس آ گئے، فلسطین ہی میں تھے کہ سیّدنا عثمانی غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر پہنچ گئی۔ محاصرہ کی حالت چالیس روز تک ممتد ہوئی۔ اس عرصہ میں علی رضی اللہ عنہ کئی مرتبہ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور انھوں نے بلوائیوں کے سمجھانے اور واپس چلے جانے کی کوششیں بھی کیں لیکن عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے میر منشی مروان بن الحکم نے جوان کا چچا زاد بھائی بھی تھا، علی رضی اللہ عنہ اور بنوہاشم کے