کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 497
بلوائیوں کے ان سرداروں کے اصرار اور جرائت کو دیکھ کر اور مناسب وقت سمجھ کر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اور بعض دوسرے اصحاب کرام نے سیّدنا عثمان کی خدمت میں حاضر ہو کر مشورہ دیا کہ ان بلوائیوں کو مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے ہی یہاں سے ٹال دو، اور ان کی ضد پوری کر دو، یعنی عبداللہ بن سعد کو مصر کی امارت سے معزول کر دو، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ پھر کس کو مصر کا عامل تجویز کیا جائے۔ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے پروردہ کی سفارش کی: سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اور دوسرے صحابہ نے محمد بن ابی بکر کا نام لیا، وہ پہلے ہی سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے حامی اور عبداللہ بن سبا کے فریب میں آئے ہوئے تھے، سیّدنا عثمان غنی نے محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کو مصر کی امارت کا فرمان لکھ کر دے دیا، اور سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے بلوائیوں کے سرداروں کو رخصت کیا اور کہا کہ جاؤ اب تمہاری ضد پوری ہو گئی، سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ اور سیّدنا زبیر رضی اللہ عنہ نے بھی بہت کچھ سمجھا بجھا کر لوگوں کو رخصت کر دیا۔ تیسرے یا چوتھے روز کیا دیکھتے ہیں کہ باغیوں کی ساری کی ساری جماعت تکبیر کے نعرے بلند کرتی ہوئی مدینہ میں داخل ہوئی اور سیّدنا عثمان کے گھر کا محاصرہ کر لیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ تم لوگ تو یہاں سے چلے گئے تھے، پھر کیسے واپس آ گئے، انہوں نے کہا کہ خلیفہ نے ایک خط اپنے غلام کے ہاتھ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس مصر کی جانب روانہ کیا تھا کہ ہم جب وہاں پہنچیں تو وہ ہم کو قتل کر دے، ہم نے وہ خط راستہ میں پکڑ لیا ہے، اس کو لے کر آئے ہیں ، ساتھ ہی مصری و کوفی قافلے بھی واپس آ گئے ہیں کہ اپنے بھائیوں کے ساتھ رنج و راحت میں شرکت کریں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ واللہ یہ تم لوگوں کی سازش ہے اور تمہاری نیت نیک نہیں ہے، ان لوگوں نے کہا خیر جو کچھ بھی ہو اس خلیفہ کو قتل کرنا ضروری ہے، آپ اس کام میں ہماری امداد کریں ۔ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے برہم ہو کر فرمایا کہ میں بھلا تمہاری مدد کیسے کر سکتا ہوں ، یہ سن کر ان لوگوں نے کہا کہ پھر آپ نے ہم کو لکھا کیوں تھا؟ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے کبھی تم کو کچھ بھی نہیں لکھا، یہ سن کر وہ آپس میں حیرت کے ساتھ ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اس کے بعد مدینہ سے باہر مقام احجار الزیت میں تشریف لے گئے، اور بلوائیوں نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو تنگ کرنا شروع کیا۔ اب تک بلوائی لوگ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھتے تھے، اب انہوں نے ان کے پیچھے نماز پڑھنی چھوڑ دی اور دوسرے لوگوں کو بھی زبردستی سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھنے سے روکنا شروع کیا۔ سیّدنا عثمان غنی نے یہ رنگ اور مدینہ کی گلیوں کو بلوائیوں سے پر دیکھ کر مختلف ممالک کے والیوں کو خطوط لکھے اور امداد طلب کی، یا یہ خبریں خود بخود ہی ان ممالک میں پہنچیں چنانچہ مصر، شام، کوفہ،