کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 495
دیا، اور لوگوں کو آئندہ خلیفہ کے انتخاب میں مختلف الخیال دیکھ کر ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ فتنہ پرداز قافلوں کی روانگی: سب سے پہلے ایک ہزار آدمیوں کا ایک قافلہ یہ مشہور کر کے کہ ہم حج ادا کرنے جاتے ہیں مصر سے روانہ ہوا، اس قافلہ میں عبدالرحمن بن عدیس، کنانہ بن بشر لیثی ، سودان بن حمران وغیرہ بھی شامل تھے۔ اس قافلہ کا سردار غافقی بن حرب عکی تھا، تجویز یہ کی گئی تھی کہ مصر سے یہ ایک ہزار آدمی سب کے سب ایک ہی مرتبہ روانہ نہ ہوں ، بلکہ مختلف اوقات میں یکے بعد دیگرے چار چھوٹے چھوٹے قافلوں کی شکل میں روانہ ہوں اور آگے کئی منزل کے بعد سب مل کر ایک قافلہ بن جائیں ، چنانچہ ایسی ہی ہوا۔ ایک ہزار کا قافلہ مقام کوفہ سے مالک اشتر کی سرداری میں اسی اہتمام کے ساتھ یعنی چار حصوں میں منقسم ہو کر روانہ ہوا، اس قافلہ میں زید بن سوحان عبدی، زیادبن النضر حارثی، عبداللہ بن الاصم عامری بھی شامل تھے۔ اسی طرح ایک ہزار کا قافلہ حرقوص بن زہیر سعدی کی سرداری میں بصرہ سے روانہ ہوا جس میں حکیم بن جبلہ عبدی، بشیر بن شریح قیسی وغیرہ شامل تھے۔ یہ تمام قافلے ماہ شوال ۳۵ ھ میں اپنے اپنے شہروں سے روانہ ہوئے اور سب نے یہ مشہور کیا کہ ہم حج ادا کرنے جاتے ہیں ، ان سب نے آپس میں پہلے ہی سے یہ تجویز پختہ کر لی تھی کہ اس مرتبہ امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو ضرور معزول یا قتل کریں گے، اپنے اپنے مقاموں سے ٹکڑے ٹکڑے ہو کر روانہ ہوئے، پھر سب یکجا ہوئے، اس کے بعد چند منزلیں طے کر کے تینوں صوبوں کے قافلے مل کر ایک ہو گئے اور سب کے سب مل کر مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، جب مدینہ منورہ تین منزل کے فاصلے پر رہ گیا تو وہ لوگ جو طلحہ کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے آگے بڑھ کر ذوخشب میں ٹھہر گئے، جولوگ زبیر بن العوام کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے مقام اعوص میں آکر مقیم ہو گئے اور جو لوگ سیّدنا علی کو خلیفہ بنانا چاہتے تھے وہ ذوالمروہ میں مقیم ہو گئے۔ طلحہ کے حامیوں میں زیادہ تعداد بصرہ کے لوگوں کی تھی، زبیر بن العوام کے طرف داروں میں زیادہ تعداد کوفہ کے لوگوں کی تھی، جو لوگ سیّدنا علی کو خلیفہ بنانا چاہتے ان میں زیادہ تر مصر کے لوگ شامل تھے۔ زیاد بن النضر اور عبداللہ بن الاصم نے ان تمام بلوائیوں سے کہا کہ تم لوگ یہیں ٹھہرے رہو جلدی نہ کرو، ہم پہلے مدینہ میں داخل ہو کر اہل مدینہ کی حالت معلوم کر آئیں ، کیونکہ ہم کو معلوم ہوا ہے کہ مدینہ