کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 494
۳۵ ھ کے واقعات: مدینہ منورہ میں جو صوبوں کے والی سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ معظمہ میں آئے تھے وہ سب یکے بعد دیگرے اپنے اپنے صوبوں کی طرف رخصت ہو گئے، آخر میں سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بھی رخصت ہونے کے لیے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مجھ کو اندیشہ معلوم ہوتا ہے کہ کہیں آپ پر حملہ نہ ہو اور آپ اس کی مدافعت نہ کر سکیں ، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ میرے ساتھ ملک شام کی جانب چلیں ، وہاں تمام اہل شام میرے فرماں بردار اور شریک کار ہیں ، سیّدنا عثمان غنی نے جواب دیا کہ میں کسی حالت میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قرب و ہمسائیگی ترک نہیں کر سکتا، یہ سن کر سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اچھا آپ اجازت دیجئے کہ میں ایک زبردست لشکر ملک شام سے آپ کی حفاظت کے لیے یہاں بھیج دوں کہ وہ مدینہ میں مقیم رہے، سیّدنا عثمان نے فرمایا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پڑوسیوں یعنی مدینہ والوں کو تنگ کرنا نہیں چاہتا، یہ سن کر سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ آپ ضرور دھوکا کھائیں گے، سیّدنا عثمان غنی اس کے جواب میں حسبی اللّٰہ و نعم الوکیل کہہ کر خاموش ہو گئے، سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پھر وہاں سے اٹھ کر سیّدنا علی ،طلحہ، زبیر رضی اللہ عنہم کی خدمتوں میں حاضر ہوئے اور بوقت ضرورت عثمان غنی کی امداد کرنے کی سفارش و فرمائش کر کے شام کی جانب روانہ ہو گئے۔ عبداللہ بن سبا کی سازش: عبداللہ بن سبا نے مصر میں بیٹھے بیٹھے اپنے تمام انتظامات خفیہ طور پر مکمل کر لیے تھے اور سیّدنا عمار بن یاسر اور ورقا بن رافع انصاری جیسے صحابیوں کو بھی اس نے اپنے دام تزویر میں لے لیا تھا، لیکن اس کی اصل تحریک اور مقصود حقیقی کا حال سوائے اس کے چند خاص الخاص مسلم نما یہودیوں کے اور کسی کو معلوم نہ تھا، بظاہر اس نے حب علی اور حب اہل بیت کو خلافت عثمانی کے درہم برہم کرنے کے لیے ایک ذریعہ بنایا تھا، مذکورہ بالا فوجی مقاموں سے بہت سے سادہ لوح عرب اس کے فریب میں آ چکے تھے، چنانچہ عبداللہ بن سبا کی تحریک و اشارے کے موافق ہر ایک مقام پر مہم عثمان رضی اللہ عنہ کے لیے لوگوں نے تیاریاں کیں ، ہر مقام اور ہر گروہ کے آدمی اس بات پر تو متفق تھے کہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو معزول یا قتل کر دیا جاوے لیکن ان کے بعد کس کو خلیفہ بنایا جائے اس میں اختلاف تھا، کوئی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا نام لیتا تھا، کوئی سیّدنا زبیر بن العوام کو بہتر سمجھتا اور کوئی سیّدنا طلحہ رضی اللہ عنہ کو خلافت کے لیے سب سے موزوں سمجھتا تھا۔ چونکہ عبداللہ بن سبا کو اسلام سے کوئی ہمدردی تو تھی ہی نہیں ، اس کا مقصد سیّدنا عثمان غنی کی مخالفت تھی، لہٰذا اس نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی حمایت و محبت کے بہانے کو اس موقع پر زیادہ استعمال کرنا ترک کر