کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 493
ہے، محض نوجوان ہونا کوئی عیب کی بات نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسامہ بن زید کو صرف ۱۷ سال کی عمر میں کیوں امیر بنایا تھا۔ اس کے بعد ایک اور شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ آپ کو اپنے کنبے والوں سے بڑی محبت ہے، آپ ان کو بڑے بڑے عطیات دیتے ہیں ، سیّدنا عثمان نے جواب دیا کہ اہل خاندان سے محبت کا ہونا کوئی گناہ نہیں ہے، میں ان کو اگر عطیات دیتا ہوں تو بیت المال سے نہیں ، بلکہ اپنے ذاتی مال سے دیتا ہوں ، بیت المال سے تو میں نے اپنے خرچ کے لیے بھی ایک کوڑی نہیں لی، اپنے رشتہ دار کے لیے بلا استحقاق کیسے لے سکتا تھا،اپنے ذاتی مال کا مجھ کو اختیار ہے جس کو چاہوں دوں ۔ اس کے بعد ایک شخص اٹھا اور اس نے کہا کہ تم نے چراگاہ کو اپنے لیے مخصوص کر لیا ہے، سیّدنا عثمان غنی نے جواب دیا کہ میں جب خلیفہ منتخب ہوا تھا، تو مدینہ میں مجھ سے زیادہ نہ کسی کے اونٹ تھے نہ بکریاں ، لیکن آج کل میرے پاس صرف دو اونٹ ہیں جو صرف حج کی سواری کے لیے رکھ لیے ہیں ، میں ان کو چرائی پر بھی نہیں بھیجتا، البتہ بیت المال کے اونٹوں کی چراگاہ ضرور مخصوص ہے اور وہ میرے زمانے میں نہیں ، بلکہ پہلے سے مخصوص چلی آتی ہے، اس کا مجھ پر کوئی الزام نہیں لگایا جا سکتا۔ پھر ایک شخص نے کہا، کہ تم یہ بتاؤ کہ تم نے منیٰ میں پوری نماز کیوں پڑھی، حالانکہ قصر کرنی چاہیے تھی، سیّدنا عثمان غنی نے جواب دیا کہ میرے اہل و عیال مکہ میں مقیم تھے، لہٰذا میرے لیے نماز کا قصر نہ کرنا جائز تھا۔ غرض اس قسم کے اعتراضات[1] سر مجلس لوگوں نے کیے اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ہر ایک کا کافی و شافی جواب دیا، اس کے بعد جلسہ برخاست ہوا اور لوگ خاموشی کے ساتھ اٹھ کر منتشر ہو گئے، سیّدنا عمروبن العاص رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ آپ کی طرف سے لوگوں کے ساتھ نرمی کا ضرورت سے زیادہ اظہار ہو رہا ہے، فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا یہ طریقہ نہیں تھا، ان سے سیکڑوں کوس کے فاصلہ پر بیٹھے ہوئے عامل ان کے پیش خدمت غلام سے بھی زیادہ ڈرتے اور خائف رہتے تھے، لوگوں کے ساتھ نرمی صرف اسی حد تک برتنی چاہیے جہاں تک کہ فتنہ و فساد کے پیدا ہونے کا اندیشہ نہ ہو، آپ جن لوگوں کو جانتے ہیں کہ وہ مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں ان کو قتل نہیں کرا دیتے، سیّدنا عثمان غنی نے سیّدنا عمرو کے اس مشورے کو سنا اور خاموش ہو گئے۔
[1] یہ بے بنیاد اعتراضات ہی تھے، ثابت شدہ امور نہیں تھے۔