کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 490
دمشق میں اس کو سیّدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وجہ سے کم کامیابی ہوئی، باقی ہر جگہ وہ کامیابی کے ساتھ لوگوں کے خیالات کو خراب کرتا اور چھوٹی یا بڑی ایک جماعت بناتا اور اپنے راز دار و شریک کار ایجنٹ ہر مقام پر چھوڑتا گیا، دمشق میں بھی اس نے اتنا کام ضرور کیا کہ سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کے واقعہ سے فائدہ اٹھا کر لوگوں میں اس خیال کو پھیلایا کہ ابوذر رضی اللہ عنہ سچ کہتے تھے، اور وہ راستی پر تھے، کیونکہ بیت المال کو امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے اللہ کا مال بتا کر اس پر اپنا قبضہ کرنا اور اپنے زیر تصرف رکھنا چاہا ہے، حالانکہ وہ مسلمانوں کا مال ہے اور سارے مسلمان اس میں شریک ہیں اور انھی میں اس کو تقسیم کر دینا چاہیے، اسی سلسلہ میں اس نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو بھی مورد الزام ٹھہرایا اور لوگوں کو ان کے خلاف بھڑکایا، ان کے بعد عبداللہ بن سبا سیّدنا ابوالدرداء کی خدمت میں حاضر ہوا اور نہایت احتیاط و قابلیت کے ساتھ اپنے فاسد خیالات ان کی خدمت میں پیش کرنے شروع کیے، انہوں نے عبداللہ بن سبا کی باتیں سن کر صاف طور پر کہہ دیا کہ مجھ کو تو تم یہودی معلوم ہوتے ہو اور اسلام کے پردے میں مسلمانوں کو گمراہ کرتے پھرتے ہو، وہاں جب اس کی دال نہ گلی تو وہ سیّدنا عبادہ بن صامت کی خدمت میں پہنچا، انہوں نے جب اس کے خیالات سنے اور اس کی باتوں سے اس کا اندازہ کیا تو فوراً اس کو پکڑ لیا اور سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی خدمت میں لے کر جا کر کہا کہ مجھ کو تو یہ شخص وہی معلوم ہوتا ہے جس نے ابوذر رضی اللہ عنہ کو بہکایا اور تم سے لڑا دیا ہے، سیّدنا امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ نے اسی وقت اس کو دمشق سے نکلوا دیا تھا اور وہ وہاں سے مصر کی طرف جا کر مصروف کار اور اپنی سازشی تدابیر کا جال پھیلانے میں مصروف ہو گیا تھا۔ جب ممالک محروسہ کے ہر گوقہ سے مدینہ منورہ میں خطوط آنے لگے اور خود دارالخلافہ میں شورش کے سامان پیدا ہوئے، تو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس مدینہ کے بعض اکابر آئے اور ان کو توجہ دلائی کہ اپنے عاملوں کی خبر لیں ، اور لوگوں کی شکایتوں کو دور کریں ، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کی جماعت میں سے چند معتبر و معتمد حضرات کو منتخب کر کے ہر ایک صوبہ کی طرف ایک ایک آدمی بھیجا کہ اصل حالات معلوم کر کے آئیں اور یہاں آ کر بیان کریں ، چنانچہ محمد بن مسلمہ کوفہ کی جانب، اسامہ بن زید بصرے کی جانب، عبداللہ بن عمر شام کی جانب روانہ ہوئے، اسی طرح ہر ایک چھوٹے یا بڑے صوبے کی طرف ایک ایک تفتیش کنندہ روانہ ہوا، چند روز کے بعد سب نے بیان کیا کہ ہم نے تو عاملوں اور والیوں میں کسی قسم کی کوئی برائی نہیں دیکھی، سب اپنے اپنے علاقے میں پوری توجہ اور کوشش کے ساتھ مصروف کار ہیں ، اور کوئی خلاف شرع حرکت بھی ان سے سرزد نہیں ہوتی، نہ رعایا میں سے کوئی شریف و ذی عقل شخص ان کا شاکی ہے، یہ کیفیت اہل مدینہ نے سنی اور قدرے ان کی تسکین ہوئی، لیکن چند ہی روز کے بعد پھر وہی