کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 49
دستور العمل یا جدید نظام حکومت کے بنانے کی مسلمانوں کو ضرورت ہی نہیں ، کیونکہ قرآن مجید سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس موجود ہے۔ پس بہترین شخصیت کے انتخاب کر لینے کا کام بھی مسلمانوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں ہے، جو شخص قرآن و حدیث سے زیادہ واقف اور اس کی زندگی قرآن و سنت کے سانچہ میں زیادہ ڈھلی ہوئی نظر آتی ہو وہ اس امر کا زیادہ مستحق ہے کہ مسلمانوں کا حاکم بنایا جائے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے موافق ملک و قوم کو چلانا اور احکام اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو نافذ کرنا مسلمانوں کے حاکم کا خالص کام ہے، مسلمان اپنے حکمران کو اگر وہ اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت میں کوئی حرکت کرے فوراً ٹوک اور روک سکتے ہیں ، لیکن اس کے ہر ایک حکم کی تعمیل کو، جو قرآن و سنت و حدیث کے خلاف نہ ہو، ہر ایک مسلمان کا فرض ہے کہ ضروری سمجھے، اور اس سے بغاوت و سرکشی کا خیال تک بھی دل میں نہ آنے دے۔[1] مسلمانوں کا حکمران اگر بے راہ روی اور اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صاف احکام کی خلاف ورزی اختیار کرے تو فوراً معزول کیا جا سکتا ہے،لیکن اگر وہ اپنے فرائض اور ملک و قوم کی خدمات اللہ کے ڈر اور نیک نیتی کے ساتھ بجا لاتا ہے تو اس سے بڑھ کر اور کیا حماقت ہو سکتی ہے کہ ایک تجربہ کار، مفید ملک و قوم، نیک طینت اور قیمتی شخص کو محض اس لیے برطرف کیا جائے اور نئے شخص کے انتخاب کی زحمت گوارا کی جائے کہ اس پہلے خلیفہ یا حکمران کو تین یا پانچ سال کی مدت گزر چکی ہے۔[2] مسلمانوں کا خلیفہ درحقیقت مسلمانوں کا خادم یا مسلمانوں کا چوکیدار، پاسبان یا امین ہوتا ہے، پس کسی خادم یا پاسبان یا امین کو اگر وہ اپنے فرائض عمدگی سے بجا لاتا ہے، ہم کیوں اس کے فرائض سے ہٹائیں اور کسی نئے تجربہ کی مصیبت میں اپنے آپ کو مبتلا کریں ، مسلمان اپنے خلیفہ سے کوئی قانون بنوانا نہیں چاہتے، مسلمان اپنے خلیفہ کو اپنے روپے سے عیش پرستی و تن پروری کا موقع ہی نہیں دینا چاہتے، مسلمانوں کا خلیفہ ایک نہایت معتدل اور معقول نظام کے ماتحت امیروں سے بقدر مناسب مال و دولت وصول کرتا اور اس کو غریبوں ، مفلسوں اور یتیموں وغیرہ حاجت مندوں کے لیے خرچ کرتا ہے، مسلمانوں کی سلطنت کا تمام خزانہ مسلمانوں کا مشترکہ مال ہے اور وہ انہیں کی فلاح و بہبود کے لیے خرچ ہوتا ہے، نہ یہ کہ مسلمانوں کا خلیفہ یا بادشاہ اس کو ذاتی ملکیت سمجھے اور اپنے اختیار سے جو چاہے کرے، مسلمانوں کی سلطنت میں چونکہ امراء سے ایک مناسب ٹیکس وصول کیا جاتا ہے اور محتاجوں کو دیا جاتا ہے، لہٰذا قوم میں سرمایہ داروں
[1] صحیح بخاری، کتاب الفتن، صحیح مسلم، کتاب الامارۃ میں اس مضمون کی بہت سی روایات مروی ہیں ۔ [2] تین یا پانچ سالہ مدت حکومت کا تصور جمہوریت کا ہے، اسلام کے نظام حکومت یعنی خلافت میں ایسی خرافات کی قطعاً کوئی گنجائش موجود نہیں ۔