کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 489
تعلق تھے مطمئن ہو گئے، لیکن عبداللہ بن سبا کے گروہ اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے عناد رکھنے والوں نے رفتہ رفتہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے عمال اور کوفہ کے اردگرد کے اضلاع میں رہنے والے چھوٹے چھوٹے حکام کے متعلق جو عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے مقرر کیے ہوئے تھے شکایات کرنی شروع کیں اور خط و کتابت کے ذریعہ مدینہ منورہ میں دوسرے با اثر حضرات کو بھی سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے بدگمان بنانا شروع کیا، مدینہ والوں کے پاس جب باہر والوں سے عاملوں کی شکایت میں خطوط پہنچتے تو وہ بہت پیچ و تاب کھاتے، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور ان کو عمال کی سزا دہی اور معزولی کے لیے مجبور کرتے۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ عند التحقیق چونکہ اپنے عاملوں کو بے خطا پاتے، لہٰذا وہ ان کو سزا دینے یا معزول کرنے میں تامل کرتے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خود مدینہ منورہ میں سیّدنا عثمان غنی کے متعلق لوگوں کی زبان پر علانیہ شکایتیں آنے لگیں اور جا بجا خلیفہ وقت کی نسبت سرگوشیاں ہونی شروع ہوئیں ، یہ رنگ دیکھ کر ابواسید ساعدی، کعب بن مالک اور حسان بن ثابت وغیرہ بعض حضرات مدینہ میں لوگوں کو طعن تشنیع سے روکتے اور اطاعت خلیفہ کی تاکید کرتے تھے، مگر لوگوں پر کوئی اثر نہ ہوتا تھا، یہ وہ زمانہ تھا کہ عبداللہ بن سبا کے ایجنٹ تمام ممالک اسلامیہ اور تمام بڑے بڑے شہروں اور قصبوں میں پہنچ چکے تھے، اور اس کے متبعین ہر جگہ پیدا ہو چکے تھے۔ ممالک اسلامیہ میں طاقت کے اعتبار سے آج کل پانچ بڑے بڑے مرکز تھے، مدینہ تو دارالخلافہ تھا اور شروع ہی سے وہ اسلامی طاقت و شوکت کا منبع و مرکز رہا تھا، کوفہ اور بصرہ دونوں فوجی چھاؤنیاں یا لشکری لوگوں اور جنگ جو عربی قبائل کی بستیاں تھیں ، اور دونوں مقاموں پر اسلامی طاقت اس قدر موجود تھی کہ تمام ایرانی صوبوں پر جیحون کے پارترکستان تک اور آرمینیاء تک و جارجیہ کے صوبوں اور بحراخضر و بحراسود کے ساحلوں تک کوفہ و بصرہ کا رعب طاری تھا، فسطاط یا قاہرہ بھی فوجی چھاؤنی تھی اور مصر کے علاوہ طرابلس و فلسطین تک اس کا اثر پڑتا تھا، دمشق تمام ملک شام کا دارالصدر تھا، یہاں بھی مسلمانوں کی اس قدر فوجی طاقت موجود تھی کہ قیصر روم اس طاقت سے خائف تھا اور جب کبھی دمشقی فوج کا قیصری فوج سے مقابلہ ہوا، رومیوں نے ہمیشہ شکست ہی کھائی۔ عبداللہ بن سبا شروع ہی میں ان پانچوں مرکزوں کی اہمیت محسوس کر چکا تھا، اور اس کو معلوم تھا کہ ان کے سوا کوئی چھٹا مقام ایسا نہیں ہے جہاں مسلمانوں کی فوجی طاقت اور عربوں کی جنگ جو جمعیت ان میں سے کسی مقام کے برابر موجود ہو، لہٰذا وہ سب سے پہلے مدینہ منورہ میں آیا، یہاں سے وہ بصرہ پہنچا، بصرہ سے کوفہ، کوفہ سے دمشق اور دمشق سے مصر پہنچا۔