کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 488
معلوم ہوا کہ یہ تمام شورش محض فرضی اور خیالی طور پر برپا کی گئی ہے، اصلیت اس کی کچھ بھی نہیں ہے، یہ معلوم ہو کر لوگوں کو اور بھی تعجب ہوا، بعض حضرات نے یہ مشورہ دیا کہ جو لوگ اس قسم کی شرارتوں اور بغاوتوں میں خصوصی طور پر حصہ لیتے ہیں ، ان سب کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر قتل کر دیا جائے اور مجرموں کے ساتھ کسی نرمی اور رعایت کو روانہ رکھا جائے، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں صرف اسی قدر سزا دے سکتا ہوں جس قدر قرآن و حدیث نے مقرر کی ہے، جب تک میں کسی کو علانیہ مرتد ہوتے ہوئے نہ دیکھوں اس وقت تک کیسے کسی کو قتل کر سکتا ہوں ، جن جن جرموں کی حدود مقرر ہیں انھی پر حد جاری کر سکتا ہوں ، باقی اپنے خلاف ہر ایک فتنے کو صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کرنے کا عزم رکھتا ہوں ، غرض اس قسم کی باتیں ہو کر یہ مجلس برخاست ہوئی اور کوئی خاص تجویز اور طرز عمل نہیں سوچا گیا البتہ یہ ضرور ہوا کہ جہاد کے لیے بعض اطراف میں فوجیں روانہ کرنے کا حکم ضرور بعض عاملوں کو دیا گیا۔ مدینہ منورہ سے روانہ ہو کر عمال اپنے اپنے صوبوں کی طرف روانہ ہوئے، جب سعید بن العاص اپنے صوبے کی طرف روانہ ہوئے تو مقام جرعہ پر پہنچ کر انہوں نے دیکھا کہ کوفہ والوں کا ایک بڑا لشکر یزید بن قیس کی ماتحتی میں موجود ہے، سعید بن العاص کے پہنچنے پر یزید نے بڑی سختی اور درشتی سے کہا کہ تم یہاں سے فوراً واپس چلے جاؤ، ہم تم کو کوفہ میں ہرگز داخل نہ ہونے دیں گے، یہ سن کر سعید بن عاص کے غلام نے کہا کہ یہ ناممکن ہے کہ سعید واپس چلے جائیں ، یہ سن کر مالک اشتر نے فوراً آگے بڑھ کر سعید کے غلام کا پاؤں پکڑا اور اونٹ سے نیچے کھینچ کر قتل کر دیا، اور سعید بن العاص سے کہا کہ جاؤ عثمان سے کہہ دو کہ ابوموسیٰ اشعری کو بھیج دے۔ سعید مجبوراً وہاں سے لوٹے اور مدینہ میں واپس آکر تمام ماجرا سیّدنا عثمان غنی کو سنایا، انہوں نے اسی وقت ابوموسیٰ اشعری کو اپنے پاس بلا کر کوفہ کی گورنری پر مامور فرمایا، ابو موسیٰ اشعری مدینہ سے روانہ ہو کر کوفہ میں پہنچے اور اپنے ہمراہ سیّدنا عثمان کا ایک خط کوفہ والوں کے نام لائے کہ تم نے اپنے لیے جس شخص کو پسند کیا منتخب کیا ہے اسی کو تمہاری طرف بھیجا جاتا ہے، یہ بھی لکھا تھا کہ جہاں تک شریعت مجھ کو اجازت دے گی میں تمہاری خواہشات پورا کیے جاؤں گا اور تمہاری زیادتیوں کو برداشت کر کے تمہاری اصلاح کی کوشش کروں گا۔ ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں پہنچ کر جمعہ کے روز تمام لوگوں کے سامنے منبر پر چڑھ کر خطبہ دیا جس میں جماعت المسلمین کے اندر تفرقہ مٹانے اور امیر المومنین عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی اطاعت کرنے کی تاکید کی، ابو موسیٰ کی اس تقریر سے کوفہ میں کسی قدر سکون نمودار ہوا اور عام لوگ جو سبائی جماعت سے بے خبر اور بے