کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 487
قعقاع بن عمرو نے یزید کو چھوڑ دیا، لیکن اس کے بعد ہی مالک اشتر اپنی جمعیت کے ساتھ حمص سے کوفہ میں پہنچ گیا، ان لوگوں کے کوفے پہنچنے پر شورش پسندوں میں ایک تازہ قوت اور جوش پیدا ہوا، مالک اشتر نے علانیہ لوگوں کو یزید بن قیس کی جماعت میں شامل ہونے کی ترغیب دی اور خود بھی یزید بن قیس کے لشکریوں میں شامل ہو کر کوفہ سے روانہ ہوا، قعقاع اس جمعیت کا مقابلہ نہ کر سکے، یہ لوگ کوفہ سے روانہ ہو کر قادسیہ کے قریب مقام جرعہ میں پہنچے۔ ۳۴ ھ کے واقعات: کوفہ کی تو وہ حالت تھی جو اوپر مذکور ہوئی، ادھر سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے دوسرے عاملوں کے نام بھی فرامین روانہ کر دیئے تھے کہ اس مرتبہ بعد حج سب مدینہ منورہ میں میرے پاس آ کر شریک مشورہ ہوں ، چنانچہ شام سے سیّدنا امیر معاویہ، مصر سے عبداللہ بن سعد بن ابی سرح، کوفہ سے سعید بن العاص، بصرہ سے عبداللہ بن عامر اور بعض دوسرے چھوٹے چھوٹے صوبوں سے بھی وہاں کے عامل مدینہ میں آ کر جمع ہوئے، سیّدنا عثمان غنی نے علاوہ ان عمال کے مدینہ منورہ کے صاحب الرائے حضرات کو بھی شریک مجلس کیا اور دریافت کیا کہ یہ شورش جو میرے خلاف پھیلی ہے اس کا سبب بتاؤ اور مجھ کو مفید مشورہ دو کہ میں کیا کروں ۔ عبداللہ بن عامر نے کہا کہ میرے نزدیک ان لوگوں کو جہاد میں مصروف کر دینا بہترین علاج ہے، خالی بیٹھے ہوئے اس قسم کے فساد اور فتنے ان کو سوجھتے ہیں ، جب جہاد میں مصروف ہو جائیں گے تو یہ شورشیں خود بخود فن ہو جائیں گی۔ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان شریر لوگوں کے سرداروں ، یعنی شرارت کے اماموں کی بات بات پر معقول گرفت کی جائے اور ان کو منتشر کر دیا جائے اس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ان کے پیر و لوگ خود بخود منتشر ہو جائیں گے، امیرالمومنین سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ رائے تو معقول ہے لیکن اس پر عمل درآمد آسان نہیں ہے۔ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم لوگ جو صوبوں کے گورنر ہیں اپنے اپنے صوبوں کو سنبھالیں اور ان مفسدوں سے ہر ایک صوبے کو کلی پاک کر دیں ۔ عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ لوگ سب کے سب لالچی اور زبردست ہیں ، ان کو مال و زر دے کر اپنا بنا لینا چاہیے۔ اسی مجلس میں جب شورش و فساد کے متعلق اصل حالات ایک دوسرے سے دریافت کیے گئے تو