کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 486
حالات دیکھ کر آئیں اور صحیح اطلاع دربار خلافت میں پہنچائیں ، عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ جب مصر میں پہنچے تو وہاں کے ان لوگوں نے جو عبداللہ بن سعد گورنر مصر سے ناخوش تھے، اور ان لوگوں نے جو عبداللہ بن سبا کی جماعت سے تعلق رکھتے تھے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو اپنا ہم نوا و ہم خیال بنا لیا اور ان کو مدینہ منورہ میں واپس جانے سے یہ کہہ کر روک لیا کہ سیّدنا عثمان دیدہ و دانستہ ظلم و ستم کو روا رکھتے ہیں ، ان کی امداد و مصاحبت سے پرہیز کرنا مناسب ہے۔ [1] محمد بن مسلمہ نے کوفہ پہنچ کر سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اطلاع دی کہ یہاں کے عوام بھی، اور بعض شرفاء، بھی علانیہ زبان درازی اور طعن و تشنیع پر زبان کھولتے اور عذر و بغاوت کے علامات کا اظہار کر رہے ہیں ۔ انھی ایام میں اشعث بن قیس، سعد بن قیس صائب بن اقرع، مالک بن حبیب، حکیم بن سلامت، جریر بن عبداللہ، سلمان بن ربیعہ وغیرہ حضرات جو صاحب اثر اور عزم و ہمت کے وارث اور خلافت اسلامیہ کے حامی تھے کوفہ سے دوسرے مقامات کی طرف روانہ ہو چکے تھے۔ سعید بن العاص نے ہر طرف شورش اور لوگوں کی زبانوں پر علانیہ شکایات کو دیکھ کر قعقاع بن عمرو کو اپنا قائم مقام بنایا اور کوفہ سے مدینہ کا عزم کیا کہ خلیفہ وقت کو جا کر خود زبانی تمام حالات سنائیں اور اندیشہ و خطرہ کی پوری کیفیت سمجھائیں ، سعید بن العاص کے روانہ ہونے کے بعد کوفہ کے لوگوں نے مالک اشتر وغیرہ کو جو حمص میں مقیم تھے لکھا کہ آج کل کوفہ بالکل خالی ہے جس طرح ممکن ہو اپنے آپ کو کوفہ میں پہنچا دیں ، کوفہ میں بارعب عمال خلافت کے موجود نہ رہنے کے سبب عوام کی زبانیں بالکل بے لگام ہو گئیں اور علانیہ لوگ عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے عاملوں کو برا کہنے اور طعن و تشنیع کرنے لگے۔[2] اس ہنگامہ نے یہاں تک ترقی کی کہ یزید بن قیس کوفہ والوں کی ایک جمعیت ہمراہ لے کر اس ارادے سے نکلا کہ مدینہ میں پہنچ کر سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو خلع خلافت پر مجبور کرے، قعقاع بن عمرو یہ دیکھ کر سدراہ ہوئے، اور ایک جمعیت اپنے ہمراہ لے جا کر یزید بن قیس کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے۔ یزید نے قعقاع بن عمرو کی منت سماجت کر لی اور کہا کہ مجھ کو سعید بن العاص رضی اللہ عنہ سے بعض شکایات ہیں ، اس کے سوا اور کوئی مقصد نہ تھا کہ سعید بن العاص کو کوفہ کی گورنری سے معزول کرایا جائے،
[1] صحیح بخاری، کتاب الفتن، حدیث ۷۰۸۴۔ صحیح مسلم، کتاب الامارۃ، باب وجوب ملازمۃ جماعۃ المسلمین عند ظھور الفتن و فی کل حال [2] وہاں مجوسیت کے کافی اثرات ابھی باقی تھے، منافقین اور دیگر سازشی گروہ بھی اپنا کام دکھا رہے تھے، اس لیے خلیفۃ المسلمین اور ان کے حکام کے خلاف لوگ علانیہ بدزبانی پر اتر آئے۔ ان لوگوں میں ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی موجود تھی جو منافق اور سبائی گروہ سے تعلق رکھتے تھے۔