کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 485
پھیلائے ہوئے خیالات کا چرچا ہوا تو یہاں کے گورنر سعید بن العاص نے اس کو بلا کر ڈانٹا اور وہاں کے سمجھ دار اور شریف آدمیوں نے بھی اس کو مشتبہ آدمی سمجھا، چنانچہ عبداللہ بن سبا کوفہ سے نکل کر شام کی طرف روانہ ہوا، مگر جس طرح بصرہ میں وہ اپنی ایک جماعت چھوڑ آیا تھا، اسی طرح کوفہ میں بھی اس نے اپنی ایک زبردست جماعت چھوڑی، جس میں مالک اشتر وغیرہ مذکورہ بالا اشخاص اور ان کے احباب و اقارب زیادہ تر شامل تھے۔ کوفہ سے جب وہ شام یعنی دمشق میں پہنچا تو یہاں اس کی دال زیادہ نہ گلی اور جلدی ہی اسے یہاں سے شہر بدر ہونا پڑا، عبداللہ بن سبا کی عداوت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور بنو امیہ سے دم بہ دم ترقی کر رہی تھی اور ہر جلاوطنی اس کے لیے ایک نیا میدان اور نیا موقع کامیابی کا پیدا کر دیتی تھی، شام سے خارج ہو کر وہ سیدھا مصر میں پہنچا، وہاں کے گورنر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ تھے، مصر میں عبداللہ بن سبا نے اپنے سابقہ تجربے سے فائدہ اٹھا کر زیادہ احتیاط اور زیادہ گہرے پن کے ساتھ کام شروع کیا، یہاں اس نے اپنی خفیہ سوسائٹی کا مکمل نظام مرتب کیا اور محبت اہل بیت اور حمایت علی رضی اللہ عنہ کے اظہار کو خاص الخاص ذریعۂ کامیابی بنایا، مصر کے گورنر عبداللہ بن سعد کی نسبت بھی مصریوں کو اور وہاں کے مقیم عربوں کو شکایات تھیں ، عبداللہ بن سعد کو افریقہ بربر، نیز قیصر قسطنطنیہ کے معاملات کی وجہ سے داخلی باتوں کی طرف زیادہ متوجہ رہنے کی فرصت بھی نہ تھی۔ یہاں سے عبداللہ بن سبا نے اپنے بصرہ اور کوفہ کے دوستوں سے خط و کتابت جاری کی اور مقررہ و مجوزہ نظام کے موافق مصر، کوفہ اور بصرہ سے وہاں کے عاملوں کی شکایت میں مدینہ والوں کے پاس پیہم خطوط جانے شروع ہوئے، ساتھ ہی بصرہ والوں کے پاس کوفہ اور مصر سے خطوط پہنچے کہ یہاں کے گورنروں نے بڑے ظلم پر کمر باندھ رکھی ہے، اور رعایا پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا ہے، اسی طرح بصرہ اور کوفہ سے مصر والوں کے پاس اور بصرہ و مصر و دمشق سے کوفہ والوں کے پاس خطوط پہنچنے لگے، چونکہ کسی جگہ بھی عاملوں اور گورنروں کے ہاتھ سے رعایا پر ظلم نہ ہوتا تھا، لہٰذا ہر جگہ کے آدمیوں نے یہ سمجھا کہ ہم سے زیادہ اور تمام صوبوں پر ظلم و تشدد اور بے انصافی روا رکھی جا رہی ہے اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ ظالمانہ طور پر اپنے عاملوں اور گورنروں کو ان کے عہدے پر بحال رکھنے اور معزول کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔[1] چونکہ ہر ایک صوبے اور ہر ایک علاقے سے مدینہ منورہ میں بھی برابر خطوط پہنچ رہے تھے لہٰذا سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو مصر کی جانب اور محمد بن مسلمہ کو کوفے کی طرف روانہ کیا کہ وہاں کے
[1] یہ سازشی تحریک از حد خطرناک اور زہریلی تھی۔ نتیجتاً سازشیوں کو بہت سے فتنے برپا کرنے میں کامیابی مل گئی۔