کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 484
اس نے ان احمقوں کو اس عقیدے پر قائم کرنا شروع کیا کہ ہر پیغمبر کا ایک خلیفہ اور وصی ہوا کرتا ہے اور سیّدنا محمد کے وصی سیّدنا علی رضی اللہ عنہ ہیں۔ جس طرح رسول اللہ خاتم الانبیاء ہیں اسی طرح سیّدنا علی خاتم الاوصیاء ہیں ، پھر اس نے علانیہ کہنا شروع کیا کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کے سوا دوسروں کو خلیفہ بنا کر بڑی حق تلفی کی ہے، اب سب کو چاہیے کہ سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی مدد کریں اور موجودہ خلیفہ کو قتل یا معزول کر کے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ بنا دیں ۔ عبداللہ بن سبا یہ تمام منصوبے اور اپنی تحریک کی ان تمام تجویزوں کو مدینہ منورہ سے سوچ سمجھ کر بصرہ میں آیا تھا اور اس نے نہایت احتیاط اور قابلیت کے ساتھ بہ اقساط اپنی مجوزہ بد عقیدگیوں کو شائع کرنا اور لوگوں کے سامنے بیان کرنا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ اس فتنے کا حال بصرے کے گورنر عبداللہ بن عامر کو معلوم ہوا تو انہوں نے عبداللہ بن سبا کو بلا کر پوچھا کہ تم کون ہو، کہاں سے آئے ہو اور یہاں کیوں آئے ہو؟ عبداللہ بن سبا نے کہا مجھ کو اسلام سے دلچسپی ہے، میں اپنے یہودی مذہب کی کمزوریوں سے واقف ہو کر اسلام کی طرف متوجہ ہوا ہوں اور یہاں آپ کی رعایا بن کر زندگی بسر کرنا چاہتا ہوں ، عبداللہ بن عامر نے کہا کہ میں نے تمہارے حالات اور تمہاری باتوں کو تحقیق کیا ہے مجھ کو تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ تم کوئی فتنہ برپا کرنا اور مسلمانوں کو گمراہ کر کے یہودی ہونے کی حیثیت سے جمعیت اسلامی میں افتراق و انتشار پیدا کرنا چاہتے ہو، چونکہ عبداللہ بن عامر کی زبان سے پتے کی باتیں نکل گئی تھیں ، لہٰذا اس کے بعد عبداللہ بن سبا نے بصرے میں اپنا قیام مناسب نہ سمجھا اور اپنے خاص الخاص راز دار اور شریک کار لوگوں کو وہاں چھوڑ کر اپنی بنائی ہوئی جماعت کے لیے مناسب تجاویز و ہدایات سمجھا کر بصرہ سے چل دیا اور دوسرے اسلامی فوجی مرکز یعنی کوفہ[1] میں آیا، یہاں پہلے سے ہی ایک جماعت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور ان کے عامل کی دشمن موجود تھی، عبداللہ بن سبا کو کوفہ میں آکر بصرہ سے زیادہ بہتر موقع اپنی شرارتوں کو کامیاب بنانے کا ملا۔ عبداللہ بن سبا کو ایک طرف تو اسلام سے مخالفت تھی، دوسری طرف اس کو سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ سے خاص ذاتی عداوت تھی اور وہ سیّدنا عثمان غنی سے کوئی انتقام یا بدلہ لینے کا خواہش مند معلوم ہوتا تھا، کوفہ میں آکر بہت جلد عبداللہ بن سبا نے اپنے زہدو اتقاء کا سکہ لوگوں کے دلوں پر بٹھا دیا، عام طور پر لوگ اس کو تعظیم و تکریم کی نگاہ سے دیکھتے اور اس کا ادب و لحاظ کرنے لگے، جب کوفہ میں عبداللہ بن سبا کے
[1] کوفہ اس وقت سازشوں کا سب سے بڑا مرکز تھا۔ بدعہدی میں تو وہ لوگ اس قدر مشاق ہو گئے تھے کہ یہ ضرب المثال مشہور ہو گئی : کوفی لا یوفی یعنی کوفی وعدہ پورا نہیں کرتے۔