کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 483
معقول اور سراسر نادرست جواب دیا اور اپنی ضد پر اڑا رہا، مجبوراً امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو لکھا کہ یہ لوگ راہ راست پر آنے والے نظر نہیں آتے، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کو لکھا کہ ان لوگوں کو حمص کی جانب عبدالرحمن بن خالد کے پاس بھیج دو، سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کو حمص کی جانب روانہ کر دیا، عبدالرحمن بن خالد والیٔ حمص نے ان کے ساتھ ان کے حسب حال سختی و درشتی کا برتاؤ کیا، حتی کہ اپنی مجلس میں ان کو بیٹھنے کی اجازت بھی نہیں دی، چند روز کے بعد یہ لوگ سیدھے ہو گئے اور اپنی سابقہ سرکشی کی حرکات پر اظہار افسوس کیا، عبدالرحمن بن خالد نے اس کی اطلاع دربار خلافت کو لکھ کر بھیجی، وہاں سے اجازت آ گئی کہ اگر یہ لوگ اب کوفہ کی طرف جانا چاہیں تو جانے دو۔ عبداللہ بن سبا: عبداللہ بن سبا المعروف بہ ابن السوداء شہر صنعاء کا رہنے والا ایک یہودی تھا، وہ سیّدنا عثمان غنی کے عہد خلافت میں یہ دیکھ کر کہ مسلمانوں کو دولت خوب حاصل ہوتی ہے اور اب یہی دنیا میں سب سے بڑی فاتح قوم بن گئی ہے مدینہ میں آیا اور بظاہر مسلمانوں میں شامل ہو گیا، مدینہ میں اس کا آنا اور رہنا بہت ہی غیر معروف اور ناقابل التفات تھا، لیکن اس نے مدینہ میں رہ کر مسلمانوں کی اندرونی اور داخلی کمزوریوں کو خوب جانچا اور مخالف اسلام تدابیر کو خوب سوچا، انھی ایام میں بصرہ کے اندر ایک شخص حکیم بن جبلہ رہتا تھا، اس نے یہ وطیرہ اختیار کیا کہ اسلامی لشکر کے ساتھ ھکسی فوج میں شریک ہوجاتا تو موقع پا کر ذمیوں کو لوٹ لیتا، کبھی کبھی اور لوگوں کو بھی اپنا شریک بناتا اور ڈاکہ زنی کرتا، اس کی ڈاکہ زنی کی خبریں مدینہ میں سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ تک پہنچیں ۔ انہوں نے گورنر بصرہ کو لکھا کہ حکیم بن جبلہ کو شہر بصرہ کے اندر نظر بند رکھو اور حدود شہر سے باہر ہرگز نہ نکلنے دو، اس حکم کی تعمیل میں وہ بصرہ کے اندر محصور و نظر بند رہنے لگا، عبداللہ بن سبا حکیم بن جبلہ کے حالات سن کر مدینہ سے روانہ ہوا اور بصرہ میں پہنچ کر حکیم بن جبلہ کے مکان پر مقیم ہوا، یہاں اس نے حکیم بن جبلہ اور اس کے ذریعہ اس کے دوستوں اور دوسرے لوگوں سے مراسم پیدا کیے، اپنے آپ کو مسلمان اور حامی و خیر خواہ آل رسول ظاہر کر کے لوگوں کے دلوں میں اپنے منصوبے کے موافق فساد انگیز خیالات و عقائد پیدا کرنے لگا، کبھی کہتا کہ مجھ کو تعجب ہوتا ہے کہ مسلمان اس بات کے تو قائل ہیں کہ سیّدنا عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ دنیا میں آئیں گے لیکن اس بات کو نہیں مانتے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی دنیا میں ضرور آئیں گے، چنانچہ اس نے لوگوں کو ﴿اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لَرَآدُّکَ اِلٰی مَعَادٍ﴾ (القصص : ۲۸/۸۵) کی غلط تفسیر سنا سنا کر اس عقیدہ پر قائم کرنا شروع کیا کہ سیّدنا محمد کی مراجعت دوبارہ دنیا میں ضرور ہو گی، بہت سے احمق اس فریب میں آ گئے، پھر