کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 482
میں وفات پائی اور بہت سی دولت اور اولاد چھوڑی۔ ۳۳ ھ کے واقعات: ولید بن عقبہ کی معزولی کے بعد کوفہ کی گورنری پر سعید بن العاص مقرر ہوئے تھے، جیسا کہ اوپر ذکر ہو چکا ہے، سعد بن العاص رضی اللہ عنہ نے کوفہ میں پہنچ کر اہل کوفہ کی دل جوئی اور مدارات میں کوئی کوتاہی نہ کی، مالک بن حارث نخعی جو مالک بن اشتر کے نام سے مشہور ہے، ثابت بن قیس ہمدانی، اسود بن یزید، علقمہ بن قیس، جندب بن زہیر، جندب بن کعبہ ازدی، عروہ بن الجعد ، عمروبن الحمق خزاعی، صعصعہ وزید پسران سوحان بن عبدی اور کمیل بن زیاد وغیرہم، سب سعید بن العاص کی صحبت میں آکر بیٹھتے اور بے تکلفانہ باتیں کرتے، کبھی ہنسی مذاق کی باتیں بھی ہو جاتیں ، ایک روز سعید بن العاص گورنر کوفہ کی زبان سے نکلا کہ یہ علاقہ تو قریش کا باغ ہے، یہ سن کر مالک اشتر نے فوراً غصہ کے لہجہ میں کہا، کہ جس علاقہ کو اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کے زور سے فتح کیا ہے تم اس کو اپنی قوم کا بستان خیال کرتے ہو، ساتھ ہی دوسرے لوگوں نے بھی اس قسم کی باتیں شروع کیں ، شور و غل بلند ہوا تو عبدالرحمن اسدی نے لوگوں کو شورو غل مچانے سے منع کیا، اس پر سب نے مل کر عبدالرحمن کو مارا اور اس قدر زد و کوب کیا کہ بیچارہ بیہوش ہو گیا، اس واقعہ کے بعد سعید بن العاص نے رات کی صحبت موقوف کر کے دربان مقرر کر دیے کہ لوگوں کو آنے سے باز رکھیں اس رات کی روزانہ مجلس کے برخاست ہونے کا لوگوں کو بہت ملال ہوا اور اب عام طور پر جہاں دو چار آدمی مل کر بیٹھتے یا کھڑے ہوتے سعید بن العاص کی اور ان کے ساتھ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی بھی شکایات زبان پر لاتے، ان شکایت کرنے والوں کے گرد اور بہت سے بازاری آدمی جمع ہو جاتے۔ رفتہ رفتہ یہ سلسلہ طویل ہوا اور فتنہ بڑھنے لگا تو سعید بن العاص نے یہ تمام روئیداد سیّدنا عثمان غنی کی خدمت میں لکھ کر بھیج دی، عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے جواباً سعید بن العاص کو لکھا کہ ان لوگوں کو کوفہ سے شام کی طرف امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس بھیج دو، چنانچہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے سب کو شام کی طرف روانہ کر دیا، وہاں سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان کی خوب خاطر مدارت کی، ان کے ساتھ ہی بیٹھ کر کھانا کھاتے اور سب کا روزینہ بھی مقرر کر دیا، بات یہ تھی کہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کو لکھ دیا تھا کہ چند سرکش لوگوں کی ایک جماعت تمہاری طرف بھجوائی جاتی ہے تم کوشش کرو کہ وہ راہ راست پر آ جائیں ، اسی لیے امیر معاویہ نے ان لوگوں کے ساتھ نہایت محبت و ہمدردی کا برتاؤ کیا، چند روز کے بعد انہوں نے ان لوگوں کو سمجھایا کہ قریش کی سیادت کو تسلیم کریں اور مسلمانوں کے باہمی اتفاق کو درہم برہم نہ ہونے دیں ، لیکن صعصہ بن صوحان نے امیر معاویہ کی نہایت معقول اور ہمدردانہ باتوں کا بہت ہی غیر