کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 481
جانے پر مجبور کیا، پن چکی والے نے اس کے قیمتی لباس کے لالچ میں جب کہ وہ سو رہا تھا قتل کر دیا، اور لباس و زیور اور ہتھیار وغیرہ اتار کر اس کی لاش کو پانی میں ڈال دیا، یہ واقعہ نواح مرو میں مقام مرغاب کے متصل ۲۳ اگست ۶۵۱ء کو وقوع پذیر ہوا۔ یزد جرد کے چار سال تو عیش و عشرت کی حالت میں گزرے، سولہ برس تباہی اور آوارگی کے عالم میں بسر ہوئے، ان سولہ برس میں آخری دس سال مفروری کے عالم میں گزرے، اس کے بعد ایرانی فتنے سب فرو ہو گئے۔ اسی سال محمد بن ابی حذیفہ رضی اللہ عنہ اور محمد بن ابی بکر نے جو مصر میں والی مصر عبداللہ بن سعد بن ابی سرح کے پاس مقیم تھے عبداللہ بن سعد سے مخالفت و ناخوشی کا اظہار کیا، عبداللہ بن سعد کے ساتھ ان دونوں بزرگوں کی ناخوشی بڑھتے بڑھتے یہاں تک نوبت پہنچی کہ انہوں نے علانیہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر اعتراض و طعن کیا کہ انہوں نے عبداللہ بن سعد جیسے شخصوں کو جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناخوش رہے صوبوں کا گورنر بنا رکھا ہے اور ان کی زیادتیاں اور مظالم دیکھ کر بھی معزول نہیں کرتے۔ ۳۲ ھ کے واقعات: ۳۱ ھ کے ماہ ذی الحجہ میں جب عبداللہ بن عامر حج بیت اللہ کے لیے خانہ کعبہ کی طرف روانہ ہوئے، تو ملک ایران کے ایک ایرانی سردار مسمیٰ قارن نے ملک کے مختلف صوبوں سے چالیس ہزار کا ایک لشکر جمع کر کے ایران کے صوبوں پر قبضہ کر لینے کا مناسب موقع پایا، قارن کی اس شرارت و دلیری کے مقابلہ میں عبداللہ بن حازم ایک سردار نے صرف چند ہزار مسلمانوں کی جمعیت سے وہ کار نمایاں کیا کہ ایرانیوں کو سخت ترین ذلت و نامرادی کے ساتھ شکست کھانی پڑی، عبداللہ بن حازم اپنی تین چار ہزار کی جمعیت کو لے کر ایرانیوں کے چالیس ہزار لشکر کی طرف روانہ ہوئے، قریب پہنچ کر انہوں نے مجاہدین کو حکم دیا کہ اپنے اپنے نیزوں پر کپڑا لپیٹ دیں اور کپڑے تیل یا چربی سے تر کر لیں ، جب لشکر قارن کے قریب پہنچا تو شام ہو کر رات ہو چکی تھی، عبداللہ بن حازم نے حکم دیا کہ تمام نیزوں کے کپڑوں کو آگ لگا دیں اور دشمن پر حملہ آور ہوں اس اچانک حملہ آوری اور ان مشعلوں کی روشنی کو دیکھ کر ایرانی حواس باختہ ہو کر بھاگے اور کسی کو مقابلہ کرنے کا ہوش نہ رہا، مسلمانوں نے بہتوں کو قتل اور بہتوں کو گرفتار کیا، بہت سے اپنی جان بچا کر لے گئے اور بچ کر نکل گئے، عبداللہ بن عامر حج بیت اللہ سے فارغ ہو کر مدینہ منورہ سیّدنا عثمان کی خدمت میں بھی حاضر ہوئے تھے۔ بعض روایات کے بموجب سیّدنا عبدالرحمن بن عوف نے ۷۵ برس کی عمر میں اس سال یعنی ۳۲ ھ