کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 479
طرح غائب ہو جانے سے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو سخت ملال ہوا، اسی وقت سے سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ پر حادثات و فتن کا نزول شروع ہوا، سیّدنا عثمان غنی نے اس انگوٹھی کے گم ہو جانے پر ایک اور انگوٹھی بالکل اسی نمونے اور اسی شکل و شمائل کی بنوائی تھی۔ اسی سال جب مسجد نبوی میں نمازیوں کی کثرت ہوئی اور جمعہ کے دن ایسی کثرت ہونے لگی کہ اذان کی آواز سب نمازیوں تک پہنچنی دشوار ہوئی تو سیّدنا عثمان غنی نے حکم دیا کہ مؤذن بلند مقام پر چڑھ کر خطبہ کی اذان سے پہلے ایک اور اذان دیا کریں ۔[1] اس طرح جمعہ کے دن دو اذانیں ہونے لگیں ، اسی سال سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی عراق و شام کی جائیدادیں فروخت کر کے مدینہ، مکہ، طائف وغیرہ میں جائیداد دیں خرید لیں ، چنانچہ اکثر صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس پر عمل بھی کیا۔ فتح طبرستان: سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے کوفہ کی گورنری پر مامور ہو کر اور کوفہ پہنچ کر ایک لشکر مرتب کیا، اس لشکر میں سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ ، سیّدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ،ابن عمرو، عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ ، حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ وغیرہ بھی شامل تھے، اس لشکر کے ساتھ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ نے طبرستان پر حملہ کر کے طبرستان و جرجان کے تمام علاقے اور مشہور شہروں کو فتح کر لیا اور یزید بن المہلب کو قومس کی طرف روانہ کیا۔ اشاعت قرآن مجید: سیّدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ جب بصرہ، کوفہ، رے ، شام وغیرہ ہوتے ہوئے مدینہ منورہ میں واپس تشریف لائے تو انہوں نے کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ عراق والے قرآن مجید کو ایک اور قرات پر پڑھتے اور شام والے کسی دوسری قرائت کو پسند کرتے ہیں ، بصرہ والوں کی قرات کوفہ والوں سے اور کوفہ والوں کی قرات فارس والوں سے الگ ہے، مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ سب کو ایک ہی قرات پر جمع کیا جائے، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے صحابہ کرام کو جمع کر کے مجلس مشاورت منعقد کی، سب نے حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ کی رائے کو پسند کیا، اس کے بعد سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سیّدنا حفصہ رضی اللہ عنہا کے پاس سے قرآن مجید کا وہ نسخہ منگوایا جو خلافت صدیقی میں سیّدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابہ کے زیر اہتمام جمع اور مرتب ہوا تھا، اور اوّل سیّدنا ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے پاس، پھر ان کے بعد فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زیر تلاوت رہا، اور فاروق اعظم کی شہادت کے بعد سیّدنا حفصہ کے پاس تھا، اس قرآن مجید کی نقل اور کتابت پر عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے کئی معقول و موزوں حضرات کو مامور کیا، جب بہت سی نقلیں تیار ہو گئیں تو ایک ایک
[1] صحیح بخاری، کتاب الجمعہ، حدیث ۹۱۲… دوسری اذان مدینہ کے ایک مقام زوراء پر دی جاتی تھی۔