کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 478
درشتی تھی، لہٰذا لوگ ان سے عموماً چشم پوشی اور درگزر ہی کرتے تھے، لیکن یہاں بھی نوعمر اورخوش طبع لوگ موجود تھے، وہ کبھی نہ کبھی ان کو چھیڑ ہی دیتے تھے۔ اتفاقاً اس عرصہ میں سیّدنا عبدالرحمن بن عوف کی وفات ہوئی، وہ بہت مال دار شخص اور عشرہ مبشرہ میں شامل تھے، کسی نے سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ عبدالرحمن بن عوف نے اس قدر دولت چھوڑی ہے، ان کی نسبت آپ کا کیا حکم ہے، انہوں نے بلا تامل سیّدنا عبدالرحمن رضی اللہ عنہ پر بھی اپنا فتویٰ جاری کر دیا، اس پر سیّدنا کعب احبار جو سیّدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مسلمان ہوئے تھے اور بنی اسرائیل کے زبردست عالم تھے معترض ہوئے، ابوذر رضی اللہ عنہ نے یہ کہہ کر کہ اے یہودی تجھ کو ان مسائل سے کیا واسطہ، اپنا عصا اٹھایا اور کعب احبار پر حملہ آور ہوئے، کعب احبار بھاگے اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی مجلس کی طرف گئے، ان کے پیچھے پیچھے ابوذر بھی اپنا عصا لیے ہوئے پہنچے، بڑی مشکل سے سیّدنا عثمان کے غلاموں نے کعب احبار کو بچایا، اور سیّدنا ابوذر کو باز رکھا۔ سیدنا ابوذر کا غصہ جب فرو ہوا تو وہ خود سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ میرا عقیدہ تو یہی ہے کہ سب کا سب مال اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کر دینا واجب ہے، شام کے لوگوں نے میری مخالفت کی اور مجھ کو ستانا چاہا، اب مدینہ میں بھی لوگ اسی طرح میری مخالفت کرنے لگے ہیں آپ بتائیں کہ میں کیا تدبیر اختیار کروں اور کہاں چلا جاؤں ؟ اس پر سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ مدینہ سے باہر کسی گاؤں میں سکونت اختیار فرما لیں ، چنانچہ سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ مدینہ سے تین دن کے فاصلہ پر مقام موضع ربذہ میں جا کر سکونت پذیر ہو گئے۔ خاتم نبوی: رسول اللہ کی انگشتری جس سے خطوط اور فرامین پر مہر کیا کرتے تھے وفات نبوی کے بعد سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس تھی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہ انگوٹھی جبکہ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ خلیفہ منتخب ہو گئے تو ان کو سپرد کر دی، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے بعد وہ انگوٹھی فاروق اعظم کے پاس رہی، فاروق اعظم نے جبکہ انتخاب خلیفہ کا کام اصحاب شوریٰ کے سپرد کیا وہ انگوٹھی ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو سپرد کر دی کہ جو شخص خلیفہ منتخب ہو اس کو پہنچا دی جائے، جب سیّدنا عثمان غنی خلیفہ منتخب ہوئے تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے وہ انگشتری ان کی خدمت میں پہنچا دی، اسی سال یعنی ۳۰ ھ میں مدینہ سے دو میل کے فاصلہ پر قباء میں ایک کنویں کے اندر جس کا نام بیراریس ہے وہ انگشتری سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ سے گر گئی، اس کنویں کا تمام پانی سینچ دیا گیا اور انگوٹھی کے لیے بڑی ہی تلاش و کوشش کی گئی لیکن وہ کہیں ہاتھ نہ آئی، خاتم نبوی کے اس