کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 477
ان کے مخالف شکایتیں کرنے بھی مدینہ میں پہنچ گئے، ولید جب مدینہ میں گئے اور سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو انہوں نے ولید سے مصافحہ کیا، لوگوں کو یہ مصافحہ کرنا بھی ناگوار گزرا، پھر شراب خوری کے الزام کی تحقیق شروع ہوئی تو کوئی ایسا گواہ پیش نہ ہوا جو یہ کہے کہ میں نے ولید کو شراب پیتے ہوئے دیکھا ہے، لہٰذا شک و شبہ کی حالت میں سیّدنا عثمان ذوالنورین نے حد جاری کرنے میں تامل کیا، لوگوں نے اس تامل و توقف پر بھی بدگمانی کو راہ دی، بالآخر دربار خلافت میں یہ گواہی پیش ہوئی کہ ہم نے ولید بن عقبہ کو شراب پیتے ہوئے تو نہیں دیکھا لیکن شراب کی قے کرتے ہوئے دیکھا ہے، اس کے بعد سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے حکم دیا کہ ولید کے درے لگائے جائیں ، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ اس مجلس میں موجود تھے عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب نے ولید کے درے مارنے شروع کیے، جب چالیس درے لگ چکے تو سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے روک دیا، اور کہا کہ اگرچہ فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے شراب خور کے اسی درے لگائے ہیں ، اور وہ بھی درست ہیں ، لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے شراب خوری کے چالیس درے لگائے ہیں اور مجھ کو اس معاملہ میں صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی تقلید زیادہ محبوب ہے، اس کے بعد خلیفہ وقت نے ولید بن عقبہ کو کوفہ کی گورنری سے معزول کر کے ان کی جگہ سعید بن العاص رضی اللہ عنہ کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا۔ سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ: اسی ۳۰ ھ میں سیّدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کا واقعہ پیش آیا کہ وہ ملک شام میں سیّدنا امیر معاویہ کی ماتحتی میں تشریف رکھتے تھے، وہاں انہوں نے آیہ کریمہ ﴿وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّہَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَہَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْہُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ﴾ (التوبۃ : ۹/۳۴) کے معانی و مطالب میں امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے مخالفت کی، ابوذر غفاری فرماتے تھے کہ روپیہ کا جمع کرنا اور سب کا سب راہ اللہ تعالیٰ میں خرچ نہ کر دینا کسی طرح جائز نہیں اور سیّدنا امیر معاویہ فرماتے تھے کہ انفاق فی سبیل اللہ سے مراد زکو ۃ کا ادا کرنا ہے، جس روپیہ کی زکوٰ ۃ ادا کی جائے اس کا جمع ہونا گناہ نہیں ہے، اگر روپیہ کا بلا شرط جمع کرنا گناہ ہوتا تو قرآن کریم میں ترکہ کی تقسیم، اور وراثت کے حصہ کا ذکر نہ ہوتا، سیّدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے اس عقیدہ کا حال وہاں کے لوگوں کو معلوم ہوا تو سب نے ان کا مذاق اڑایا اور نو عمر لوگ خاص کر زیادہ تمسخر کرنے لگے، سیّدنا ابوذر کا اصرار اور بھی ترقی کرتا گیا، یہاں تک نوبت پہنچی کہ سیّدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیّدنا عثمان غنی کو اس کیفیت کی اطلاع دی، خلیفہ وقت نے حکم بھیجا کہ سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو نہایت تکریم کے ساتھ مدینہ منورہ کی طرف روانہ کر دو۔ مدینہ میں آکر سیّدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے اپنے عقیدے کا اعلان شروع کر دیا، چونکہ ان کے مزاج میں