کتاب: تاریخ اسلام جلد اول (اکبر شاہ) - صفحہ 476
مدینہ منورہ کو بھیجی اور آئندہ کے لیے خلیفہ وقت سے ہدایات طلب کیں ۔
۲۹ ھ کا حج:
سیّدنا عثمان غنی مدینہ منورہ سے مہاجرین و انصار کی ایک جماعت کے ساتھ حج بیت اللہ کے ارادے سے روانہ ہوئے، منیٰ میں پہنچ کر حکم دیا کہ خیمہ نصب کریں اور حاجیوں کو جمع کر کے ان میں ضیافت کریں ، لوگوں نے اس بات کو بدعت سمجھ کر ناپسند کیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق و فاروق رضی اللہ عنہ کے زمانے میں ایسا نہیں ہوا تھا۔
اسی سفر میں قبیلہ جہنیہ کی ایک عورت سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پیش کی گئی، یہ عورت پہلے بیوہ تھی، پھر اس نے عقد ثانی کیا، اور بعد نکاح صرف چھ مہینے گزرنے پر اس کے لڑکا پیدا ہوا، سیّدنا عثمان نے اس عورت پر رجم کرنے کا حکم دیا، جب اس حکم کی خبر سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کو پہنچی تو وہ سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی خدمت میں پہنچے اور کہا کہ قرآن مجید میں خدائے تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَہْرًا﴾ (الاحقاف : ۴۶/۱۵) ’’اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھوڑنا اڑھائی برس میں ہوتا ہے۔‘‘ جس سے معلوم ہوا کہ حمل اور دودھ پلانے کی مدت تیس مہینے ہے، اور مدت رضاعت قرآن مجید میں دوسری جگہ بیان کی گئی ہے کہ ﴿وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ﴾ (البقرۃ: ۲/۲۳۳) ’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں ۔‘‘ پس دودھ پلانے کی مدت دو سال یعنی چوبیس مہینے تیس مہینے میں سے خارج کریں ، تو باقی حمل کی اقل مدت چھ مہینے رہتی ہے، لہٰذا اس عورت پر زنا یقینی طور پر ثابت نہیں ، سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کا یہ کلام سن کر فوراً آدمی دوڑایا کہ اس عورت کو رجم نہ کیا جائے، لیکن اس آدمی کو پہنچنے سے پہلے اس کو رجم کیا جا چکا سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کو اس کا سخت ملال و افسوس رہا۔
اسی سال سیّدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے مسجد نبوی کی توسیع کی، مسجد کا طول ایک سو ساٹھ گز اور عرض ایک سو پچاس گز رکھا اور پتھر کے ستون لگائے ، ورودیواریں تمام پختہ بنوائیں ۔
۳۰ ھ ہجری:
ولید بن عقبہ جیسا کہ اوپر مذکور ہو چکا ہے کوفہ کی گورنری پر مامور تھے، ابوزبیدہ شاعر جو پہلے نصرانی تھا اور اب مسلمان ہونے کے بعد بھی شراب خوری سے باز نہ آیا تھا، ولید بن عقبہ کی صحبت میں زیادہ رہتا تھا، لوگوں نے ولید بن عقبہ پر بھی شراب خوبی کا الزام لگایا، رفتہ رفتہ یہ شکایت دربار خلافت تک پہنچی، وہاں سے ولید بن عقبہ کی طلبی کا حکم آیا، یہ مدینہ منورہ میں جواب دہی کے لیے حاضر ہوئے۔